یہ مطالبہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر ٹی ایس تریمورتی نے نئی دہلی میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض مذہبی فوبیا کو اجاگر کرنا حالیہ برسوں میں ایک اہم رجحان بن گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو ابراہیمی مذاہب کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے ساتھ روا رکھی جانے والی منافرت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ دیگرمذاہب کو بھی منافرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لہذا دیگر مذاہب کے ساتھ روا رکھی جانے والی منافرت بالخصوص ہندو، بودھ اور سکھ فوبیا کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔
ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے حالیہ برسوں میں اسلاموفوبیا، مسیحی فوبیا اور سامیت دشمنی کے رویوں کے حوالے سے خاصا کام کیا ہے، یہ تینوں ابراہیمی مذاہب ہیں۔ ان کا ذکر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عالمی لائحہ عمل میں بھی موجود ہے لیکن دنیا کے دیگر بڑے مذاہب کے خلاف بھی نئے فوبیا، منافرت یا تعصب بڑھ رہا ہے اور دنیا کو انہیں بھی پوری طرح تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔
انڈین سفارتکار کا کہنا تھا کہ ہندو مخالف، بودھ مخالف اور سکھ مخالف رویوں کی عصری شکلوں کا ظہور انتہائی سنگین تشویش کا باعث ہے اور اس پر اقوام متحدہ اور اس کے تمام اراکین کو ناصرف توجہ دینی چاہیے بلکہ اس خطرے کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اسی صورت میں ہم مذہبی فوبیا جیسے موضوعات پر بحث و مباحثہ میں بہتر توازن پیدا کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر نے کہا کہ ہندوتوا تنظیموں کی دھمکیوں کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ’’گمراہ کن‘‘ ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ ہندوؤں میں مذہبی لحاظ سے انتہائی محترم سمجھے جانے والے ’’مہامنڈلیشوروں‘‘ نے ’’دھرم سنسد‘‘ منعقد کر کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف نسل کشی پر ابھارنے کی کوشش کی اور بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل کی تھی۔ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف مسلسل مہم چلاتی رہتی ہیں۔
اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر تریمورتی کا کہنا تھا،’’یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ جمہوریتوں میں دایاں بازو اور بایاں بازو سیاسی اکائی کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ الیکشن کے ذریعہ اکثریتی عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آتے ہیں۔ اور جمہوریت اپنے وسیع معنوں میں مختلف آئیڈیالوجی اور نظریات کا وسیع مجموعہ ہے۔‘‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومی یا علاقائی بیانیے کو عالمی بیانیے کا حصہ بننے نہیں دینا چاہیے۔ اور ’’پرتشدد قوم پرستی‘‘ اور’’دائیں بازو کی انتہاپسندی‘‘ جیسی اصلاحات سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوغیرموثر کر سکتے ہیں۔