اداکاری ہو ، گلوکاری یا ڈائریکشن ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی نور جہاں نہایت ہی شفیق اور محبت کرنے والی خاتون تھیں وہیں وہ اپنی ذاتی زندگی کو نہ کسی سے چھپاتیں اور نہ ہی کسی سے ڈسکس کرتیں۔
لوگوں نے ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں جو بھی لکھا انہوں نے کبھی بھی کسی چیز کی نہ تردید کی نہ تصدیق کی ۔دوستی نبھانے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا لیکن اگر کبھی دوستوں پہ غصہ ہوتا تو غصہ اتر جانے تک رابطے میں نہ آتیں، اسکی واضح مثال فریدہ خانم سے دوستی کی ہے، گہری دوستی ہونے کے باوجود اگر فریدہ خانم کی کسی بات پہ غصہ آجاتا تو ا نکو فون نہ کرتیں جب غصہ اترتا تو ہنستے ہوئے کہتیں مینوں پتہ سی میرا غصہ جدون ٹھنڈا ہونا اے میں آپے ای تیرے نال رابطہ کر لینا اے۔
فریدہ خانم سے ان کی دوستی فلم باجی کے سیٹ پر ہوئی یہ فلم ساٹھ کی دہائی میں بنی اس میں پہلی بار نور جہاں اور فریدہ خانم نے ایکساتھ گایا حالانکہ میڈم کا سکیل اونچا اور فریدہ خانم کا سکیل لو تھا لیکن ان دونوں کی گائیکی کو اس دور میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، یہیں سے ان کی دوستی گہری ہوتی گئی اور مرتے دم تک رہی۔ میڈم بہت ہی حوصلے اور ہمت والی خاتون تھیں، دنیا سے رخصت ہونے سے تین ماہ قبل ستمبر2000 میں آخری سالگرہ منائی، اس میں اپنی فیملی کےعلاوہ صرف انہوں نے پی ٹی وی سے خواجہ نجم الحسن، شمیم آرا، حسنہ، نگہت سلطانہ اور فریدہ خانم کو بلوایا، وہاں آئے لوگوں سے یہی کہا کہ طبیعت خراب تو بہت ہے، بس میرے لیے دعا کیجیے گا۔ ان کی گائیکی ہو یا ذاتی زندگی بہت سارے لوگوں نے بہت کچھ لکھا لیکن نورجہاں نے پلٹ کر کبھی کسی کو جواب دیا اور نہ ہی کبھی کسی کی جرات ہوتی کہ ان سے انکی ذاتی زندگی سے جڑے سوال پوچھ لیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=Paf0M2AotIc
جج چوہدری غلام حسین نے اپنی کتاب جج جنتا اور جرنیل میں نورجہاں کی زندگی کے حوالے سے ایک واقعے کا حوالہ دیا اس واقعہ کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ واقعتا ایسی خاتون تھیں جو ہر معاملے میں بہادری سے کام لیتی تھیں۔
واقعہ کچھ یوں تھا، 1953 میں ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے خلاف تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا۔ لاہور کے ایک سول جج چوہدری غلام حسین کی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو نوجوان وکیل مولوی مشتاق حسین نے شوکت حسین رضوی اور اے آر شیخ نے نور جہاں کی وکالت کی۔ دوران سماعت مولوی مشتاق حسین نے نورجہاں پر جرح کرتے ہوئے اُن کے نذر محمد کے ساتھ تعلقات ثابت کرنے کی کوشش کی تو نورجہاں نے عدالت میں کہا ’’میرے نذر کے ساتھ ایسے ہی تعلقات رہے ہیں جیسے مولوی مشتاق حسین کے ساتھ۔ میری ان کےساتھ ملاقاتیں بھی اتنی ہی دفعہ ہوئی ہیں جتنی بار مولوی مشتاق حسین کے ساتھ اور یہ اسی سلسلے میں ہوتی رہی ہیں، جس سلسلے میں مولوی مشتاق حسین کے ساتھ، مولوی مشتاق کوئی جواب نہ دے سکے اور مقدمہ ہار گئے اب ا س سارے سلسلے میں جس طرح سوالات ہوئے نورجہاں کی جگہ عام خاتون ہوتی تو گھبرا جاتی ۔پھر کلدیپ نا ئر سمیت دیگر شخصیات کا کہنا ہے کہ کسی نے ان کے سامنے نورجہاں سے پوچھا آپ نے اب تک کتنے گانے گائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا" میں نے نہ گانوں کا حساب رکھا ہے، نہ گناہوں کا "اس حد تک بولڈ خاتون تھیں۔
میڈم کے بارے میں کافی قصے مشہور تھے ایک ایسا ہی قصہ ہم آپ کو بتاتے ہیں جس کی تصدیق خود شوکت حسین رضوی نے ایک انٹرویو میں کر دی تھی ۔اس واقعہ کو قوٹ کرنے کا مطلب ہرگز میڈم کی ذاتی زندگی کو اچھالنا نہیں ہے لیکن لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کو پرائیویٹ رکھنا پسند کرتی تھیں لیکن پھر بھی کوئی بات باہر نکل جاتی تو اس کی نہ تردید کرتیں نہ تصدیق۔
24 جون 1953 کو روزنامہ امروز لاہور میں خبر شائع ہوئی تھی کہ نور جہاں، کرکٹر نذر محمد سے ملنے کیلئے کسی مقام پر گئی ہوئی تھیں کہ اچانک ان کے شوہر شوکت حسین رضوی وہاں پہنچ گئے۔ نذر محمد نے شوکت حسین رضوی کو دیکھ کر بالائی منزل سے چھلانگ لگادی جس کی وجہ سے ان کا بازو ٹوٹ گیا۔ (اسی باعث وہ کرکٹ کھیلنے سے ہمیشہ کیلئے معذور ہوگئے) تیس برس بعد 1984 میں شوکت حسین رضوی نے صحافی منیر احمد منیر کو انٹرویو میں اس واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ یہ اسلامیہ پارک لاہور میں پیش آیا تھا اور نذر محمد نے انہی کو دیکھ کر چھلانگ لگائی تھی۔خیر یہ تو کچھ باتیں ان کے مضبوط کردار اور شخصیت کی عکاسی ہیں ۔میڈم نورجہاں کی سحر انگیز شخصیت اور ان کی جادو بھری آواز کے پرستار تو سب ہی تھے لتا منگیشکر جنہیں ہندوستان کی کوئل بھی کہا جاتا ہے وہ نورجہاں کی بہت بڑی پرستار ہیں ۔نوائے وقت کے لئے مجھے لتا منگیشکر کا انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے تفصیلات میں بتایا کہ کس طرح میری پہلی ملاقات نورجہاں سے ہوئی اور یہ بھی بتایا کہ جب میری پہلی ملاقات ہوئی اس وقت وہ سپر سٹار تھیں اور میں اپنا کیرئیر ابھی شروع کر رہی تھی ۔ لتا بتاتی ہیں کہ 1943میں پروفول پکچرز کے بینر تلے ’بڑی ماں ‘‘ کے نام سے فلم بن رہی تھی اس میں نورجہاں ہیروئین تھیں اور میں ایک بہت ہی چھوٹا کردار ادا کر رہی تھی اورمیرا نورجہاں کے ساتھ کوئی بھی سین نہ تھا ۔لیکن اسی سیٹ پر میری ملاقات ماسٹر وینائک نے میڈم سے کروائی ۔مجھے یاد ہے کہ ماسٹر ونائیک نے نورجہاں سے کہا کہ ہمارے پاس ایک لڑکی ہے جو بہت اچھا گاتی ہے اگر آپ کہیں تو آپ سے اسکو ملوائوں تو میڈم نے کہا کہ ضرور آپ اس لڑکی بلوائیے۔ مجھے سیٹ پر بلوایا گیا میں وہاں پہنچی تو نورجہاں پہلے سے بیٹھی ہوئی تھیں میں بھی پاس جا کر بیٹھ گئی مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا ،ہم لوگ مراٹھی فیملی سے تھے لہذا ہندی بولنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میں نورجہاں کے ساتھ اچھی طرح سے ہندی میں بات نہ کر پائوں ابھی یہ چیزسوچ ہی رہی تھی کہ نورجہاں بولیں بیٹا کیا نام ہے تمہارا میں نے کہا ’’لتا منگیشکر ‘‘تو کہنے لگیں کہ گانا تو سنائو۔میں نے چونکہ کلاسیکل اپنے والد سے سیکھا ہو ا تھا تو میں نے میڈم کو کلاسیکل گانا سنایا اپنی طرف سے سُر میں گانے کی بھرپور کوشش کی ،نورجہاں بولیں کیا کوئی فلمی گانا سنائو گی تو میں نے ان کو ’’جیون ہے بیکار بِنا تمہارے‘‘ سنایا تو وہ بہت خوش ہوئیں یوں ہماری پہلی ملاقات بہت ہی خوشگوار رہی اور میں بہت خوش بھی تھی کہ میڈم نے میری گائیگی کی تعریف کی ہے ۔بڑی ماں فلم کی چونکہ شوٹنگز چل رہی تھیں۔
سٹوڈیو کے اندر ایک میوزک ہال تھا جس میں نورجہاں قیام پذیر تھیں، وہاں ان کے ساتھ ان کا بڑا بیٹا اکبر اور شوہر بھی رہ رہے تھے۔ میڈم مجھے اکثر اپنے کمرے میں بلا لیا کرتی تھیں میں سٹوڈیو میں صبح ساڑھے نو بجے آتی تھی اور ساڑھے پانچ بجے جاتی تھی۔ ایک دن میڈم نے مجھے روک لیا میں رک گئی انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلوایا میں چلی گئی جب کمرے میں گئی تو میڈم نماز پڑھ رہی تھیں میں نے دیکھا کہ نماز ختم تو میڈم مصلحے پر بیٹھی رو رہی تھیں مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ان کو کیا ہو گیا، جب وہ جائے نماز سے اٹھیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ میڈم آپ نماز کے بعد رو کیوں رہی تھیں تو انہوں نے کہا کہ میں رو نہیں رہی تھی اللہ سے دعا مانگ رہی تھی جیسے آپ لوگ اپنے بھگوان سے مانگتے ہو اسی طرح میں اپنے اللہ سے مانگ رہی تھی۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی لہذا میں سمجھ نہیں پائی تھی کہ کوئی مسلمان کیوں اس طرح سے دعا مانگتا ہے۔
نور جہاں کی شوٹنگ ختم ہو گئی تو وہ پاکستان واپس جا رہی تھیں جاتی بار میری ان سے ملاقات نہ ہو پائی ۔بہت برسوں کے بعد ایسا ہوا کہ میڈم اور میں دونوں لند ن میں تھے مجھے پتہ چلا کہ نورجہاں لند ن میں ہیں تو میں نے کسی نہ کسی طرح ان کا پتہ لگوا لیا کہ کہاں ٹھہری ہیں ان کا فون نمبر ڈھونڈ کر ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں تو میڈم کہنے لگیں کہ آ جائو تو میں نے کہا کہ مجھے جگہ معلوم ہے، میں بس آپ سے ملنے آرہی۔ لندن میں ہماری تین سے چار ملاقاتیں اسی طرح سے ہوئیں وہ مجھے کھانا کھلاتیں گھر بلاتیں پیار سے بات کرتی تھیں وہ میرے گانوں کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں کہا کرتی تھیں کہ تمہارا یہ گانا ’’اے دل نادان‘‘ بہت پسند ہے۔
مجھے یاد ہے کہ لندن میں ہماری جب ملاقات ہوئی تو میں اٹھ کر جانے لگی تو وہ مجھے لفٹ تک چھوڑنے آئیں لفٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ میڈم نے کہا کہ لفٹ تو آتی جاتی رہے گی تم مجھے اے دل نادان سنائو میں نے وہیں کھڑے کھڑے گانا سنایا، میڈم نے مجھے بے حد دعائیں دیں ان کا ایک ایک لفظ آج بھی مجھے یاد ہے، بس اس کے بعد میری ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔