اس کے بعد اورنگزیب عالمگیر پر ایک چیپٹر، کچھ حصہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے متعلق اور پھر سیدھے سر سید احمد خان۔ اس سے پہلے، اور اس درمیان کیا کچھ ہوا، یہ خطہ جو کہ کبھی مسلمانوں کے لئے ایک دور دراز علاقہ سمجھا جاتا تھا، یہاں کیسے صدیوں تک مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھائی چارے سے رہتے رہے، کیسے اس خطے کے لوگوں میں اسلام مقبول ہوا، یہ سب ہماری تاریخ کی کتابوں سے غائب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب ہم حقیقی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو اس سے آنکھیں چراتے ہیں، اس کا منہ نوچ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وجہ حال ہی میں خیبر پختونخوا کے علاقے تخت بھائی سے ملنے والے گوتم بدھ کے مجسموں کو توڑنے کے پیچھے بھی کار فرما ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک ٹھیکے دار صاحب جو اس علاقے میں کچھ کام کر رہے تھے کو اچانک کھنڈرات میں سے ایک مورتی ملی۔ انہیں سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہے لیکن موقع پر موجود ایک مولانا صاحب نے انہیں سمجھایا کہ اس کو تباہ کر دینے سے انہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی اور انہوں نے اپنے مزدوروں کو اسے توڑنے پر لگا دیا۔ ان مزدوروں نے ایک بڑا سا ہتھوڑا لے کر اس مورتی کو پاش پاش کر دیا اور اس موقع پر ان افراد کی آپسی گفتگو سنیں تو آپ کو اس لمبی تمہید کا مقصد سمجھ آ جائے گا۔ ایک شخص کہتا سنا جا سکتا ہے کہ دیکھو، یہ ایک پتلا ہے ۔۔۔ یہ کسی عورت کا پتلا ہے اور ہم نے جو حصہ ابھی توڑا ہے یہ اس کی ٹانگوں کا اوپری حصہ تھا۔ اس کی ناف دیکھو، یہ صاف نہیں ہے۔ یہ اس کی قمیض ہے ۔۔۔ جیسے لمبی اور ڈھیلی ڈھالی قمیضیں ہوتی تھیں۔
دوسرا پوچھتا ہے کہ یہ کوئی ہندو ہے یا مغربی؟ وہاں موجود ایک اور شخص کہتا ہے کہ یہ ہندو ہے ۔۔۔ یہ گوتم بدھ کا مجسمہ ہے۔ اور پھر وہاں موجود چاروں افراد ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔
ان کی آپسی گفتگو سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک کے علاوہ ان میں سے باقی افراد کو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ جس مجسمے کو وہ توڑ رہے ہیں، یہ گوتم بدھ کا مجسمہ ہے۔ اس خطے کی تاریخ سے نابلد یہ افراد جانتے ہی نہیں کہ جس زمین پر وہ کھڑے ہیں، کسی زمانے میں بدھ مت کے پیروکاروں سے بھری تھی۔ یہاں سے اشوکا نے حکومت کی تھی اور یہاں گوتم بدھ بھی تشریف لائے تھے۔ یہ پورا خطہ جو کسی زمانے میں گندھارا کہلاتا تھا، یہاں بدھ مت کے پیرو رہتے تھے۔ پشاور کی وادی اور اس سے آگے کابل، قندھار اور پورے افغانستان اور وسطی ایشیا تک بدھ مت سب سے مقبول مذہب تھا۔
گوتم بدھ کا دور چوتھی صدی قبل مسیح کا ہے۔ یہ مسیحیت کے دنیا میں آنے سے چار سو سال اور اسلام کے دنیا میں آنے سے قریب ایک ہزار سال پہلے کا دور ہے۔ اگلے کئی سو سال تک گوتم بدھ کے ماننے والوں نے اس خطے پر حکومت کی ہے، یہ بدھ تہذیب اور تعلیم کا گڑھ مانا جانے والا خطہ تھا۔ یہاں سینکڑوں درسگاہیں قائم تھیں اور یہاں تعلیم دینے والے بھی بدھ مت ہی کے پیروکار تھے۔
مگر یہ اسباق ہماری تاریخ کی کتب سے غائب ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے نصاب سے تاریخ ہی غائب ہے تو زیادہ مبنی بر حقیقت ہوگا۔ تاریخ سے یہ دوری ہی ہے کہ ہم ان عظیم ہستیوں کا احترام اپنے دل میں نہیں پاتے۔ ہمارے نزدیک ان بتوں کا توڑ دیا جانا ہی سب سے احسن اقدام ہو سکتا ہے۔ اور یہ کسی بھی طرح اس طالبانی سوچ سے مختلف نہیں جس نے گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کبھی مسلمان علما کے مزارات پر حملے ہوتے ہیں تو کبھی قبل از اسلام مجسموں کو توڑا جاتا ہے تو یہ انہی طالبان کی سوچ کی دین ہے جس نے مارچ 2001 میں افغانستان کے علاقے بامیان میں بدھا کے مجسموں کو توڑا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں بنائے گئے یہ مجسمے عالمی تاریخی ورثے کا ایک اہم حصہ تھے۔ انہیں کبھی بامیان کے پہاڑ تراش کر ان کے چاہنے والوں نے تراشا ہوگا۔ یہ بلند و بالا مجسمے طالبان نے ملا عمر کے حکم پر بم لگا کر اڑا دیے تھے۔
سمجھ سے باہر ہے کہ وہ لوگ جو ایودھیا میں بابری مسجد کے ڈھائے جانے پر اس قدر واویلا کرتے ہیں، آخر دوسرے مذاہب سے متعلق اس قدر تنگ نظری کا مظاہرہ کیوں کرتے نظر آتے ہیں؟ ان کو شاید اندازہ نہیں کہ چین اور بھارت کے علاوہ پورے مشرقِ بعید میں بدھ مت کے پیرو کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں اور اس خطے مسلمان ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ کل کو اگر تھائی لینڈ یا ویتنام میں مساجد کو توڑنا شروع کر دیا گیا تو کیا ہمارے یہ سچے اور پکے مسلمان اس کو برداشت کر پائیں گے؟
تسلی بخش بات یہ ہے کہ 17 جولائی کو پیش آنے والے واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جو مجسمے توڑے گئے، ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق یہ کم از کم 1700 سال پرانے ہیں۔ ان میں سے ایک مجسمہ غالباً تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس سے پہلے بھی خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بدھا کے مجسمے دریافت ہو چکے ہیں۔ 2017 میں ہری پور کے علاقے بھاملا سے دو انتہائی نادر مجسمے ملے تھے۔ ان میں سے ایک میں بدھا کی موت کا منظر دکھایا گیا ہے اور یہ اپنی طرز میں دنیا کے قدیم ترین مجسموں میں سے ایک ہے۔ ایک امریکی لیبارٹری کے مطابق یہ تیسری صدی قبل مسیح سے بھی پہلے کا ہے۔
یہ واقعات اگر ہمیں کوئی ایک سبق دیتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ تاریخ کو مٹانا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ مجسمہ توڑ دیا گیا لیکن اس خطے سے گوتم بدھ کے نشانات کو مٹانا ممکن نہیں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی تاریخ سے بیر لینے کی بجائے اسے اپنا لیں اور اپنے سینے سے لگا لیں۔ یہاں ملنے والی تاریخی چیزوں کو عجائب گھروں میں رکھیں، ان کی حفاظت کریں، ان کے گرد amusement parks بنائیں اور غیر ملکیوں کو دعوت دیں کہ وہ یہاں آ کر اس خطے کی عظیم اور قدیم تاریخ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔ ہم ایک قدیم قوم ہیں۔ اور ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لئے نصابی کتب میں درست تاریخ کا لکھا جانا لازم ہے۔