کشمیر انتخابات: نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں

11:00 AM, 22 Jul, 2021

توصیف احمد خان
آزاد کشمیر انتخابات کی گہما گہمی 2018 میں پاکستان کے عام انتخابات اور گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی بازگشت میں پورے زوروں پر ہے۔ پیپلز پارٹی تو بلاول یا آصفہ بھٹو کے ذریعے بھی اپنا روایتی رنگ نہ جما سکی لیکن مریم نواز کے انتخابی مہم میں شامل ہو جانے سے ان انتخابات اور اس کے نتائج کی دھمک کا ابھی سے اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ شاید انہی ممکنہ اثرات کے پیش نظر ایک سرکاری افسر کو بھی فارغ خطمی کا پروانہ تھمانا پڑا۔ بہرحال یہ سمجھنا بیوقوفی ہوگی کہ اس کے بعد سب اچھا ہو گیا ہے کیونکہ دھاندلی دو طرح کی ہوتی ہے۔

ایک دھاندلی وہ ہوتی ہے جو الیکشن سے قبل ہوتی ہے۔ اس دھاندلی میں طاقتور اور پیسے والے امیدواروں کو اپنی من پسند پارٹی کی طرف ہانکا جاتا ہے۔ اس کام سے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ من پسند پارٹی کو ووٹر سنجیدہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرا فائدہ دراصل ووٹر کے لئے ایک خاموش پیغام ہوتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہماری من پسند پارٹی ہی جیتے گی۔ اس حربے سے ہوائی اور دھڑے بندی والا ووٹ بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

انتخابات سے قبل ایسے انتظامات سے تقریباً نصف بندوبست کر لیا جاتا ہے اور اگر اس سے بھی کام چلتا نہ دکھائی دے تو انتخابات کے نتائج کا ہیر پھیر تو ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔ کشمیر اور اس کے انتخابات کا معاملہ کشمیری اور پاکستانی قوم کے لئے کتنا ہی حساس کیوں نہ ہو لیکن پاکستانی حکمران اشرافیہ نے کشمیریوں اور انتخابی پہلوانوں کو بزور بازو ہمیشہ باور کروایا ہے کہ وہ مرکز کی طرف دیکھیں گے تو ہر طرح کی داد و دہش کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس آشکار حقیقت کے باوجود کہ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کے قبضہ گیری کے اقدامات اور جواب میں ہماری شدید کمزور دکھانے کی وجہ سے آزاد کشمیر کے عوام انتہائی دل گرفتہ ہیں اور انہیں طرح طرح کے اندیشوں نے گھیر رکھا ہے لیکن اسلام آباد ان زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے اپنے ماضی کے مطابق کشمیر کے انتخابی نتائج اپنی مرضی سے حاصل کرنے کے لئے خم ٹھونک کر پھر میدان میں ہے۔

مریم نواز کے جلسے بہت کامیاب اور ان کا جوش و خروش بھی دیدنی ہے لیکن ان کے بہت سے طاقتور امیدواروں کو پہلے ہی توڑ لیا گیا ہے اور جنہیں جرآت انکار ہوئی ان کے نیچے سے مضبوط دھڑے نکال لیے گئے ہیں۔ پھر پاکستان میں کشمیری مہاجرین کی نشستیں تو شاید رکھی ہی اسی لئے گئی تھیں کہ پاکستان میں موجود حکومت کسی بھی صورت کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ کرے اور اس دفعہ بھی ایسا کرنے کی بھرپور تیاری ہے اور پی ٹی آئی کے ناکام جلسوں کے باوجود اس کے رہنماؤں کا اعتماد طاقتور امیدواروں کو اپنے کیمپ میں لانے اور کشمیری مہاجرین کی ان نشستوں کی وجہ سے ہے۔



ان انتخابات میں جس حساب سے پیسہ خرچ کر کے ووٹ خریدے جا رہے ہیں اس پر کشمیری بھی حیران ہیں۔ سابق صدر آزاد کشمیر سردار محمد یعقوب کا حلقہ دراصل دو صدور کا حلقہ انتخاب ہے۔ ان کے مد مقابل سابق صدر سردار محمد ابراہیم کے پوتے جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑے ہیں۔ دونوں اس علاقے کے بڑے گھر شمار ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کا تعلق سدوزئی قبیلے سے ہے اس لئے ان کے درمیان فیصلہ ہمیشہ ہزار سے دو ہزار ووٹوں سے ہوتا ہے لیکن وہاں ایک ایسا امیدوار بھی ہے جس کی قریبی عزیزہ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی سردار یعقوب کی بیٹی اور سابق وزیر فرزانہ یعقوب کی پی آر او تھی لیکن اب وہی امیدوار فی یونین کونسل دو کروڑ روپے نقد کا بھی اعلان کرتا ہے اور اپنے پوسٹرز پر جنرل قمر باجوہ کی تصویر لگا کر نہ جانے لوگوں اور اپنے مخالف امیدواروں کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔

سردار محمد یعقوب سمیت پیپلز پارٹی کے پاس سات، آٹھ ایسے طاقتور امیدوار موجود ہیں جو اپنے بل پر نشستیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر سابق وزیر اعظم ممتاز راٹھور کے بیٹے اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر ہیں۔ پھر پیپلز پارٹی کو اچھا بچہ بن جانے کے صلہ کی پھر سے امید ہے حالانکہ گلگت بلتستان الیکشن میں وہ اس امید کا مزہ چکھ چکی ہے۔ پیپلز پارٹی مزید بہتر کارکردگی بھی دکھا سکتی تھی۔ وہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے اعلان سے اچھا بچہ تو بن گئی لیکن کشمیری عوام اور بھٹو شہید کے آگے بیانیے کی جنگ ہار چکی ہے۔



مریم نواز نے آگے بڑھ کر صوبے کی مخالفت والے نعرے کو اچک لیا ہے حالانکہ ان کی اپنی جماعت ایسی تمام بیٹھکوں میں شامل اور متفق ہونے کی آواز دیتی رہی ہے۔ مریم نواز نے یہ کہہ کر بجا طور پر کشمیری عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے یا کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ بنا دینے کی افواہوں سے دنیا کے لئے کشمیر بطور مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ اسی لئے تو راجا فاروق حیدر نے یہ تک کہہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی کی طرف سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ دراصل دونوں فریقین کی کسی حد تک انڈرسٹینڈنگ کا ہی نتیجہ تھا۔ انہی اندیشوں کی بنا پر کشمیری عوام مریم نواز کے اس نعرے کو پسند کرتے ہوئے ان کے جلسوں میں جوش و خروش دکھا رہے ہیں۔

مریم نواز نے پہلی مرتبہ عمران خان کو اس زبان میں جواب دیا ہے جس میں وہ خود بات کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی پریشانی بھی دیدنی ہے لیکن مریم نواز نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے جن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے خبردار کیا ہے، ایسا بیان یقیناً ایک مذاق سے کم نہیں کیونکہ نصف کام تو اس سے پہلے ہی سرانجام دیا جا چکا ہے۔ بھلا ان محکموں کی کیا اوقات کہ وہ معاونت کے علاوہ خود سے ایسا کارنامہ سرانجام دے سکیں؟ اب تو ن لیگ بھی ایسے تجربات سے بہت دفعہ گزر چکی ہے، اس لئے سبق یہی ہے کہ الیکشن کے نتائج کو ٹیم ورک اور پارٹی کارکنوں کو فعال کر کے ہی بدلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ وگرنہ فیصلہ یہی ہے کہ ایک ایسی مخلوط حکومت وجود میں آ جائے جس میں عمران خان کو بھی 15 سے 18 نشستوں کے ساتھ طمانیت حاصل ہو۔



کشمیر کے انتخابات چاہے گلگت بلتستان کے انتخابات کی ہی دوبارہ ٹیلی کاسٹ ہو یا اسے بلوچستان کے انتخابات کا نام دے دیا جائے لیکن یاد رکھا جائے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے والی بیٹھکوں کے بعد اب کشمیر کے انتخابات سے اپنی مرضی کے نتائج کی کوشش کے اثرات بہت دور تک جائیں گے۔ راولا کوٹ کا علاقہ تو پہلے ہی کشمیر کی خودمختاری کی بات کرنے والوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ پھر ان انتخابات کی شفافیت یا ان میں کی گئی دھاندلی پاکستان کی سیاست پر بھی اثرانداز ہوگی۔

یہ انتخابات سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل کے تعلقات اور باہمی اعتماد کا بھی فیصلہ کریں گے۔ اگر یہاں بھی ایک دوسرے کا اعتماد توڑا گیا تو مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے خواب پر وہ بھانت بھانت کی بولیاں سامنے آئیں گی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ ویسے ہماری یہ تاریخ ہے کہ جس نے بھی کشمیر پر کمزوری دکھائی اسے کبھی عزت نہیں مل سکی اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاست اور نظریہ بظاہر کتنا ہی شکست خوردہ اور زخموں سے چور نظر آئے، آخرکار فتح انہی کی ہوتی ہے۔

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مزیدخبریں