طلعت حسین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دیگر اداکاروں کے برعکس چھوٹی سکرین پر اُسی صورت میں نظر آتے ہیں، جب وہ یہ سمجھتے ہوں کہ مطلوبہ کردار میں ان کے لئے کچھ کرنے کو ہے۔ ان دنوں طلعت حسین شاذ و نادر ہی کسی ڈرامے میں نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ 80 اور 90 کی دہائی میں طلعت حسین کے فن سے ہر ہدایتکار نے استفاد ہ کیا۔ چاہے وہ ڈرامہ بندش ہو، ہوائیں یا پھر کشکول، ہر ڈرامہ طلعت حسین کی اداکاری کے اعتبار سے ذہنوں سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے ساتھ ساتھ تھیٹر سے منسلک رہنے والے طلعت حسین درحقیقت نوجوان فنکاروں کے لئے آئیڈیل تصور کیے جاتے ہیں۔ جن کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر کئی نوآموز فنکار یہ جان سکتے ہیں کہ اداکاری بھلا کیسے کی جاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہو کہ طلعت حسین لیجنڈ ہیں، جنہوں نے جو کام کیا، اُس میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔
طلعت حسین پاکستان کے اُن چند خوش نصیب فنکاروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ ٹی وی ڈراموں میں اپنے کردار سے انصاف کرنے کے خاطر طلعت حسین نے 1972 میں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامٹک آرٹ سے یہ گُر سیکھے کہ اداکاری کرنی ہو تو اپنے اندر کس طرح کا بدلاؤ لایا جاتا ہے۔ خیر یہ تو طلعت حسین کی اداکاری کی بات ہے لیکن بہت سے افراد اس بات سے لاعلم ہیں کہ ایک زمانے میں طلعت حسین گلوکاری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرپ کر چکے ہیں۔
اب طلعت حسین نے گلوکاری کیوں اور کیسے کی؟ اور پھر کب انہوں نے سریلی آواز سے جلترنگ چھیڑے۔ اس کے لئے ذرا ماضی کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ یہ 1973 کی بات ہے کہ جب پاکستان ٹیلی وژن سے ’پاپ شو سنگت‘ نشر کیا جا رہا تھا۔ یہ وہ شو تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں مختلف گلوکار، پاپ گلوکاری کا مظاہرہ کرتے۔ اخلاق احمد، احمد رشدی، ناہید اختر اور اُس دور کے گلوکاروں کو اس شو میں نغمہ سرائی کر کے موسیقی کی دنیا میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملا۔
طلعت حسین اُن دنوں ٹی وی ڈرامے میں کام کر رہے تھے اور جب پروڈیوسر رفیق احمد وڑائچ نے ان سے فرمائش کی کہ وہ اس شو میں گلوکاری کا مظاہرہ کریں تو طلعت حسین کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ طلعت حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف شوق ہی شوق میں گیت ’نظروں سے نظریں ملا لے‘ گنگنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلعت حسین نے اس گانے کو اس قدر ڈوب کر گایا کہ ہر کوئی ان کے اس فن کا بھی معترف ہو گیا۔ طلعت حسین کی گلوکاری سن کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہ گلوکار ہے جو صرف شوق کے خاطر گلوکاری کر رہا ہے۔ کیونکہ سُر اور تال کے ملاپ کے ساتھ طلعت حسین کی نغمہ سرائی بھی دلوں کے جلترنگ چھیڑ دیتی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=m4qaiOT1jus
ڈاکٹر امجد پرویز جو اس ٹی وی شو کے میزبان تھے، وہ بھی طلعت حسین کی گلوکاری کو سن کر کوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ انہیں خود یقین نہیں آ رہا تھا کہ انہوں نے اتنا اچھا گیت گایا۔ طلعت حسین نے یہ گیت ناہید اختر، مشتاق ہاشمی اور ثمینہ احمد کی موجودگی میں گایا۔ جنہوں نے زبردست انداز میں تالیاں بجا کر پذیرائی کی۔
یہ بھی کیسی عجیب بات ہے کہ دلوں کے تار چھیڑنے کے بعد طلعت حسین نے پھر کبھی گلوکاری نہیں کی۔ اس حوالے سے جب اُن سے راقم نے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بس شوق ہی شوق میں یہ گیت گایا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے کبھی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری کی صنف میں بھی طبع آزمائی کریں۔ یوٹیوپ پر طلعت حسین کے پرستار ڈاکٹر امجد پرویز نے دو سال پہلے جب یہ ویڈیو اپ لوڈ کی تو ہر ایک کو یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ اداکاری کے لئے اپنی ذات میں ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھنے والے طلعت حسین اس قدر سریلے گلوکار بھی رہے ہیں۔ نظر یہی آتا ہے کہ گلوکاری کے ’چھپے رستم‘ طلعت حسین کی اس خوبی سے اُس دور کے کئی پروڈیوسرز لاعلم رہے، ورنہ ممکن ہے کہ طلعت حسین کو مزید پیشکش کی جاتیں تو وہ اس فن میں بھی وہ مقام حاصل کر جاتے جو انہیں اداکاری میں ملا ہے۔