ہم سب کا بچپن بھی یقیناً ایسے ہی گزرا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ قربانی کے اس جذبے کی بجائے ہمارے اندر اس تہوار نے ایک ایسا احساس محرومی پیدا کر دیا کہ جس سال قربانی کا جانور لینے کی استطاعت نہ ہوتی تو ہمیں اپنے غریب ہونے پر نہ صرف افسوس ہوتا بلکہ ملامت اور شرمندگی ہوتی کہ ہمارے عزیز و اقارب، دوست، کلاس فیلوز اور محلے والے کیا سوچیں گے کہ ان لوگوں نے قربانی کیوں نہیں کی؟
یقین جانیے کہ اس شرمندگی میں ہم عید والے روز اپنے گھر سے نہیں نکلتے تھے اور اگر نکلتے بھی تو نئے یا صاف کپڑے نہیں پہنتے تھے کہ کہیں کسی جاننے والے کو یہ شک نہ ہو جائے کہ اس نے صاف کپڑے شاید اس لئے پہنے ہیں کہ انہوں نے قربانی نہیں کی اور ہماری غربت کا مذاق بن جائے۔ کیونکہ صاف ستھرے کپڑے پہننے کا مطلب یہی لیا جاتا کہ قربانی نہیں کی گئی ورنہ ایسے اجلے کپڑے پہن کر قربانی تو نہیں کروائی جا سکتی۔
ہمارے ملک میں کئی گھرانے جن پر قربانی فرض بھی نہیں صرف اس لئے قربانی کرتے ہیں کہ ان کے بچوں میں یہ احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ دوسری جانب کچھ ایسے سفید پوش گھرانے بھی ہیں جنہیں لگتا ہے کہ عید کے دن جب سب کے گھر میں گوشت پکتا ہے، ان کے گھر گوشت نہیں پکے گا تو ان کے بچے سوال کریں گے۔ یقیناً ایسے گھرانوں میں آج تک ایسا ہوتا ہے کہ جہاں سب لوگ قربانی کے جانور کی تصاویر، قربانی کرتے دوران کی سیلفیاں اور بعد ازاں بار بی کیو اور نت نئی ڈشز کی تصاویر اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں تو کئی سفید پوش گھرانے انہیں دیکھ کر رشک کرتے ہیں اور اپنی غربت یا بد قسمتی پر دل ہی دل میں آنسو بہا رہے ہوتے ہیں۔
لاکھوں روپے کے جانور کی قربانی کی بجائے انسانیت اور عام انسانوں کی فلاح و بہبود پر رقم خرچ کرنے کی منطق ایک مختلف موضوع ہے لیکن ایک چیز جو کی جا سکتی ہے وہ یہ کہ بچوں کے اندر احساس محرومی پیدا کرنے کی بجائے انہیں کھل کر بتایا جائے کہ قربانی کرنا یا نہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں اور نہ ہی چھوٹا بڑا جانور قربان کرنا کوئی معیار ہے، قربانی کا اصل پیغام اور جذبہ انسانیت کے لئے اپنے جان اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اس امر میں سب سے بڑی ذمہ داری ان صاحب حیثیت گھرانوں کی ہے کہ وہ دوران پرورش اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ اگر ان کا کوئی دوست یا محلے دار قربانی نہیں کر پا رہا تو اس پر اپنی امیری جھاڑنے کی بجائے اسے اپنی خوشیوں میں شامل کیا جائے۔
عید کا مفہوم اور مقصد تمام انسانوں کو بلا تفریق خوشیاں مہیا کرنا ہے مگر ان روایات میں بھی طبقاتی تقسیم پیدا کر کے اس کے حقیقی معنوں اور مفہوم کو یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس سنت ابراہیمی کا مقصد یہ تھا کہ انسان اپنے اندر قربانی کا جذبہ پیدا کریں مگر ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار اس عید کا مقصد اب سماجی روایت میں تبدیل ہو چکا ہے اور صد افسوس کہ یہ سماجی روایات اپنے حقیقی مقصد سے کوسوں دور جا چکی ہیں۔
مہنگائی اور زندگی کی خود غرضانہ روایات نے سماج کے پسے ہوئے اور غریب طبقات سے تمام تر خوشیوں کو دور کر دیا ہے، تہواروں کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہوتا ہے لیکن دکھ تو ہمیشہ انفرادی ہوتے ہیں، ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو اپنے بچوں کو سالانہ خوشیاں بھی نہیں دے سکتے، عید قرباں جہاں ایک طبقے کی خوشیوں کو دوبالا کرتی ہے وہاں غریبوں کے احساس محرومی کو بھی بڑھا دیتی ہے اور وہ اس احساس محرومی میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔
کرونا کے دگرگوں حالات میں اب کسی مزدور، ریڑھی بان یا کم آمدنی والے تنخواہ دار آدمی کے بس میں نہیں رہا کہ وہ عید پر قربانی کا جانور اپنی آمدنی سے خرید لے، ایسے میں کچھ امیر زادوں کی نمائش دولت سے محرومی کا ایک احساس ذہن و دل پر چھایا رہتا ہے، بچوں کی آنکھوں سے اٹھنے والے سوالات بالآخر آنسوؤں کی جھڑی کی صورت رخساروں تک آ جاتے ہیں۔ اپنے اپنے جانوروں کی رسی ہاتھ میں تھامے گلیوں سے چھن چھن کرتے گزرتے لوگ اتنا جانتے ہی نہیں کہ تہوار خوشی اور مسرت کے بغیر کیسے گزارے جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں ان تہواروں کی خوشیاں کو دوبارہ ان کی اصل حالت میں واپس لانا ہوگا اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں تہوار کسی ایک طبقے کی خوشیوں سے نتھی نہ ہوں بلکہ وہ سماج میں اجتماعی خوشیاں تقسیم کریں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں اپنے ملک میں ہنزہ جیسے علاقے میں قربانی کی روایت سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں ایک مدت سے لوگ اپنے قربانی کے جانور ایک مقام پر جمع کرلیتے ہیں اور انکو ایک ہی مقام پر زبح کیا جاتا ہے، پھر قربانی کے تمام جانوروں کا گوشت بنا کر گاؤں میں موجود تمام گھرانوں میں برابر تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اس وادی کے ہر گھرانے کوایک مقدار اور ایک جیسا گوشت ملتا ہے ۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس نے کتنی بڑی قربانی کی ہے اور کون شخص قربانی نہیں کرسکا۔