کمرتوڑ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ غریب عوام بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشیوں پہ مجبور ہیں۔ یہاں تک کہ مڈل کلاس بھی بجلی کے بل ادا کرنے کے حوالے سے گردے بیچنے کی باتیں کر رہی ہے۔ اس طوفانی مہنگائی کے خلاف اب فنکار بھی بول رہے ہیں، جو عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
لیکن سٹاک ایکسچینج کے سٹے باز آئی ایم ایف کی طرف سے 7 ارب ڈالرز کی منظوری پر شادیانے بجا رہے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ اس خیرات کے عوض جو غریب عوام پر شرائط نافذ کی جائیں گی اس کا اثر پاکستان کی اس اشرافیہ پہ نہیں پڑے گا، جو ریاست سے 17 بلین ڈالرز سے زیادہ کی سالانہ سبسڈی لیتی ہے اور اسے اپنی عیاشیوں پہ خرچ کرتی ہے۔
اشرافیہ کا یہ حال ہے کہ ملک کو کوئی ٹیکس دینا تو درکنار، یہ چاہتی ہے کہ ہر حکومت وقت ان کے کتے بلیوں کے لیے شیمپوز درآمد کرے، ولایتی مکھن سے ان کی تواضع کی جائے اور درآمد شدہ کاسمیٹک آئٹمز سے ان کے حسن کو نکھارا جائے۔ اس کے لیے بھلے غریب عوام کے پیسے سے سرکار 5 سے 9 ارب ڈالرز سالانہ خرچ کرے، ان کو اس کی پرواہ نہیں۔
یہ عجیب المیہ ہے کہ اس ملک میں زرمبادلہ کے سب سے بڑے ذرائع غریب عوام ہیں جو مشرق وسطیٰ میں دن رات اپنا خون پسینہ ایک کر کے ملک کو 30 ارب ڈالرز سے زیادہ کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ اس کو بے دردی سے خرچ کرتی ہے۔
کبھی لیپ ٹاپ کے نام پر ولایتی کمپنیوں سے ہزاروں کی تعداد میں یہ جدید سائنسی مشینیں درآمد کی جاتی ہیں۔ کبھی سرویز کے نام پر ہزاروں ٹیبلٹس پر رقم لٹائی جاتی ہے اور کبھی مفت موٹر سائیکلوں کے نام پر ملک کی دولت کو برباد کیا جاتا ہے۔
ہمارے وزرا اور حکمران طبقے کے لوگ اتنے غریب ہیں کہ اربوں روپے مالیت کی جاتی امرا، بلاول ہاؤس اور بنی گالہ جیسی رہائشوں یا ایلیٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہنے کے باوجود جب وزیر اعظم، مشیر، وزیر یا معاون بنتے ہیں تو ان کے کپڑوں سے لے کر جوتوں تک کا بوجھ ریاست اٹھاتی ہے۔ ان کے لیے پُرتعیش گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اور بعض معاملات میں اگر ایک گاڑی دو مہینے پرانی بھی ہو، تو یہ ان کی طبیعت پر گراں گزرتی ہے اور فوراً شاہی حکم نامہ جاری ہوتا ہے کہ اس غریب ملک کے امیر حکمرانوں کے لیے آناً فاناً پُرتعیش گاڑیاں خریدی جائیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کے سپاہیوں اور عام لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دیں لیکن اس سے حکمرانوں کی موجیں لگ گئیں۔ وہ وزیر، مشیر یا معاون جن سے گلی کا دکاندار بھی دشنمی نہ کرے، اس کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور وہ بلٹ پروف کار کے بغیر اپنے ڈرائنگ روم سے بھی نہیں نکلتا۔ گذشتہ 20 برسوں میں کئی وزرا اور حاکمین کے لیے مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں خریدی گئیں۔ تاہم وزارت جانے کے بعد یہ خطرات ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس بلٹ پروف کلچر نے غریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔
اس کے علاوہ وزرا کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے محلات کے اردگرد چار دیواری کو اونچا کیا جائے، دیواروں کو ریزر وائر لگا کر ناقابل تسخیر بنایا جائے اور سی سی ٹی وی لگا کر دشمنوں پر نظر رکھی جائے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سیاسی حکمرانوں کے علاوہ ہمارے بابوؤں کو بھی پر لگ گئے۔ وہ بابو جو سی ایس ایس کے امتحان سے پہلے کلو یا شیدے کے ہوٹل پر بھی چائے پینے کے لیے پیسے مانگتے ہیں، وہ بیوروکریٹ بننے کے فوراً بعد گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں۔ جب وہ صدر، وزیر اعظم، وزیروں اور مشیروں کی صحبت میں ہوں تو دوسرے ملک میں فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے پر تولتے ہیں۔ مہنگی مہنگی گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں اور بغیر کسی احتسابی خوف کے عوام کے خون پسینے کی کمائی ولایتی سٹرکوں پر لٹاتے ہیں۔
ہمارے اراکین اسمبلی بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوتے ہیں۔ عمران خان کے دور میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو مختلف مواقع پہ سالانہ 15، 15 کروڑ روپے سے بھی زیادہ سے نوازا گیا۔ یہ ان دعوؤں کے باوجود تھا، جن میں کپتان نے کہا تھا کہ وہ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی بجٹ یا فنڈز نہیں دے گا اور یہ کہ ایسے فنڈز بلدیاتی نمائندوں تک پہنچائے جائیں گے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی پہلی حکومت نے بھی اس بات کو اپنی شان کے خلاف سمجھا کہ وہ اپنے اراکین اسمبلی پر مال و دولت نہ لٹائیں۔ شہباز شریف کی حکومت نے خزانے کے دروازے اپنی جماعت کے اراکین پر کھول دیے، جس سے کچھ غریب اتحادیوں کو بھی فائدہ ہوا۔ ان بیچارے غریب عوامی نمائندوں پر صرف اربوں روپے لٹائے گئے تا کہ وہ انتخابات میں ہونے والی سرمایہ کاری پر منافع حاصل کر سکیں۔
آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد پہ جشن اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح معاشی فیصلے امیر اور غریب کو مختلف انداز میں فائدہ یا نقصان پہنچاتے ہیں۔ 80 کی دہائی سے پاکستان نیو لبرل پالیسی اپنا رہا ہے اور 1959 سے لے کر اب تک ملک 22 سے زیادہ مواقع پر آئی ایم ایف کے پاس پہنچا ہے۔ ہر دفعہ ہم نے یہی شادیانے بجائے ہیں کہ یہ آخری پروگرام ہو گا۔
ان قرضوں کے عوض ہم نے 160 سے زیادہ سرکاری ادارے بیچ کر ایک لاکھ سے زیادہ مزدوروں اور سرکاری ملازمین کو نکالا۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ سرکاری اداروں کو بیچ کر ریاستی قرضہ اتارا جائے گا۔ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام لیتے وقت اگر ہمارا قرضہ 20 ارب ڈالرز سے بھی کم تھا تو آج وہ 121 بلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہو گیا ہے جبکہ اندرونی اور بیرونی قرض ملا کر قرضوں کا حجم 200 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکا ہے جو آنے والے 20 برسوں میں چار سو ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔
بظاہر نظر آتا ہے کہ جتنے بھی معاشی اقدامات گذشتہ 70 برسوں میں کیے گئے ہیں، ان سے اشرافیہ کو فائدہ ہوا۔ جن لوگوں نے اپنے دور اقتدار میں پی آئی اے کی سربراہی سنبھال کر اس کا جنازہ نکالا، اب وہ اپنی پرائیویٹ ایئر لائن ناصرف دھوم دھڑکے سے چلا رہے ہیں بلکہ گدھ کی طرح اب اس کی لوٹ مار کے بھی منتظر ہیں۔
بالکل اسی طرح جن لوگوں نے سریے اور لوہے کے کاروبار میں مال و دولت کے جزیرے کھڑے کیے انہوں نے اس سٹیل ملز کا جنازہ نکال دیا جو پاکستان کے صنعتی شعبے کا سب سے بڑا ادارہ تھا۔ بینکوں کو اونے پونے داموں بیچ کر اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازا گیا جبکہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا جنازہ نکال کر گھر جیسی بنیادی ضرورت کو ایک خواب بنا دیا گیا۔
آج ان معاشی پروگراموں کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی اور رہائش سب بک رہا ہے۔ ان معاشی پرگراموں پر ڈھول پیٹنے کے بجائے ماتم کرنا چاہیے۔