جبکہ مذہبی جنونی خادم حسین رضوی بھی تحریک لبیک نام پر عوام سے 'لبیک یا رسول اللہ' کے نعرے لگوا کر ووٹ کا طلبگار ہے۔ تحریک لبیک کو نومبر 2017 میں کچھ ریاستی اداروں میں کسی کی پوری اور کسی کی ادھوری حمایت حاصل تھی۔ مذہبی استعمال میں ایک نئی جدت سامنے آ رہی تھی۔ صوفی ازم کے پرچاری اور درباروں مزاروں والے اب امن کے گیت چھوڑ کر وہ زبان استعمال کر رہے تھے جو اس کی نیچر میں ہی نہ تھا۔ "پین دی سری" کا استعمال کثرت سے جاری تھا۔ یہ ملیٹنسی کا ایک نیا پہلو تھا۔
حافظ سعید ملی مسلم لیگ کو اگرچہ الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ نہ کرا سکا مگر وہ ایک یا دوسری صورت اپنے امیدوار لازمی اتارے گا۔
تحریک انصاف نے بھی کافی حد تک مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور اسے عمران خان کی حالیہ مذہبی سرگرمیوں نے مزید فروغ دیا ہے۔
ان انتخابات میں مذہبی جنونی قوتوں کا انتخابات میں حصہ لینا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی انتخابی سٹریٹیجی کا ایک خاص حصہ ہے، جو مسلم لیگ کے روایتی رائیٹ ونگ ووٹ بینک کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے درپے ہے۔ یہ مذہبی قوتیں اسٹیبلشمنٹ کی سیکورٹی سے بڑھ کر اب انتخابی سٹرٹیجی کا طریقہ کار بن کر ابھری ہیں۔
پاکستان میں رائٹ ونگ قوتوں کا مسلسل فروغ ہو رہا ہے۔ ان کے ووٹ بینک میں اضافہ اورسماجی طاقت بڑھ رہی ہے۔ اب رائیٹ بمقابلہ رائیٹ ہے۔ لیفٹ اور پروگریسو نظریات سکڑتے جا رہے ہیں اور ان کی جماعتوں اور گروپوں میں کوئی قابل قدر اضافہ نظر نہیں آ رہا۔
اب ریڑھی والا بھی چاچا جی نہیں، حاجی صاحب کہہ کر بلاتا ہے
عوامی سطح پر مذہب کا اثر و رسوخ بھی ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ ہر ریڑھی والا اپنے گاہک کو "حاجی صاحب" کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ یہ مذہبی طرز تخاطب تقریباً ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ماضی قریب میں گاہک کو "چاچا جی، بھائی جی یا بزرگو" کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ شہروں میں برقعہ اور نقاب کا استعمال بڑھ رہا ہے اور مذہبی اجتماعات میں عام لوگوں کی بھرپور شرکت ہوتی ہے۔
نوجوانوں میں داڑھی رکھنے کا فیشن بڑھ رہا ہے۔ جس سیاسی سوچ کا معاشرے میں غلبہ بڑھتا جا رہا ہو اس کا اظہار کئی شکلوں میں ہوتا ہے۔ کرکٹرز سینچری بنانے کے بعد سجدہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ سرفراز احمد کی قیادت میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کو اس کے حافظ قرآن ہونے سے جوڑا جاتا ہے اور اس سے کرکٹ کی باتیں پوچھنے کی بجائے نعت شریف سنی جاتی ہے۔
مذہبی جنونیت کی یہ نئی شکل ایک اور طرز کی فاشسٹ سوچ بن کر ابھر رہی ہے۔ یہ ایک نئی فاشزم کا ظہور ہو رہا ہے۔ جو مذہبی جنونیت کی سابقہ شکلوں کا ہی ایک تسلسل ہے یہ براہ راست جسمانی حملوں کے ساتھ ساتھ ذہنی حملوں سے کام لے رہی ہے اور سوچ کو عوامی سطح پر فاشسٹ سوچ کے قریب لے جانے کے راستے پر گامزن ہے۔
رائیٹ ونگ کی سیاسی اصطلاح کا آغاز
رائیٹ ونگ کی سیاسی اصطلاح کا آغاز فراسیسی انقلاب (1789) کے بعد معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ سے ہوا۔ سپیکر کے بائیں جانب وہ بیٹھتے تھے جو محنت کشوں کے حامی تھے، حقیقی جمہوریت کی بات کرتے تھے، عوامی حقوق کے علمبردار تھے اور بادشاہت کے خلاف تھے۔
جبکہ دائیں جانب وہ پارلیمنٹیرینز بیٹھتے تھے جو بادشاہت کے حامی تھے، ماضی میں گم رہتے تھے اور نظریاتی طور پر آمرانہ اور جابرانہ طرز حکومت کے حامی تھے۔ یہ خاندانی روایات کے پجاری تھے اور حقیقی تبدیلی کے خلاف تھے۔
سپیکر جب بادشاہت پسند پارلیمنٹیرینز کو مخاطب ہوتا تھا تو کہتا تھا کہ اب رائیٹ والے بات کریں۔ اس طرح یہ سیاسی اصطلاح عام ہو گئی۔ اس سے ایک خاص سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔
آج لڑائی رائیٹ ونگ اور انتہا پسند رائیٹ ونگ کے درمیان ہے
آج دو طرز کی سیاسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک رائیٹ ونگ اور دوسری انتہا پسند رائیٹ ونگ۔
رائیٹ ونگ میں ہم آج پاکستان میں مسلم لیگ ن اور تمام دیگر مسلم لیگی دھڑے اور تحریک انصاف کو شامل کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا آغاز ایک لیفٹ ونگ پروگرام سے ہوا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی اب ایک رائیٹ ونگ طرز کی سوچ کو اپنا چکی ہے۔
انتہا پسند رائیٹ ونگ میں تمام مذہبی سیاسی جماعتیں شامل ہیں جو مذہبی بنیادوں پر تمام مسائل کو دیکھتی ہیں اور سیاست کرتی ہیں۔ یہ جمہوریت کے جھوٹے نعرے اپناتی ہیں اور اگر کبھی ان کی حکومت آ گئی تو یہ مذہبی بنیادوں پر آمرانہ طرز اپنانے کو اپنا بنیادی فریضہ سمجھیں گی۔ ان رائیٹ ونگ انتہا پسندوں میں مذہبی دہشتگرد، نسل پرست اور فاشسٹ بھی شامل ہیں۔
انتخابی میدان میں بھی رائیٹ ونگ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ یہاں انہوں نے بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کوایشو بنایا ہے۔ دونوں طرف ہی بدعنوان اور لٹیرے موجود ہیں اور ایک دوسرے کو روزانہ انہی القابات سے نوازنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
رائیٹ ونگ سیاسی جماعتوں میں عام لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے قیادت دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ یہ عوامی پارٹیاں ہیں
رائیٹ ونگ عمومی طورپر عام لوگوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ مارکیٹ اکانومی کے حامی ہوتے ہیں۔ پرائیوٹائزیشن کو فروغ دیتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کا تعلق سرمایہ دار و جاگیردار طبقات سے ہوتا ہے اس لئے یہ ریاست کی مدد سے اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کرنے کے لئے عوام مخالف پالیسیوں کو شدومد سے ٹھونستے ہیں۔
رائیٹ ونگ سیاسی جماعتوں میں عام لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے جو اپنے محنت کش طبقے کی سیاست کی بجائے مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان سرمایہ دار اور مذہبی جماعتوں سے جڑ جاتے ہیں۔ ان کی سوچ کو اپنا لیتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی ان پارٹیوں کی قیادت مزید لوگوں کو یہ دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ یہ عوامی پارٹیاں ہیں۔ مدرسوں کی بھرمار نے اس میں خاص کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ دور میں رائیٹ ونگ قوتوں کے مسلسل فروغ کی وجہ سے ہی اسے ہم ایک رجعتی اور رد انقلابی دور کہتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ دور ہے جس میں سرمایہ داری جاگیرداری اور مذہبی جماعتوں کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے اور جس کی وجہ سے محنت کش طبقات پر سیاسی اور معاشی جبر کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں مزید ہوگا جس کی وجہ سےعوام کی زندگی مزید دو بھر ہو گی۔
میڈیا بھی انہی گروہوں کی ملکیت میں ہے یا یہ ان کو زبردست معاشی فائدے پہنچاتے ہیں
عام انتخابات 2018 میں انہی جماعتوں اور گروہوں کی حکومت بننے یا جاری رہنے کی توقع ہے۔ یہ میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ ان کے نظریات میں جان ہے بلکہ اس لئے کہ میڈیا بھی انہی گروہوں کی ملکیت میں ہے یا یہ ان کو زبردست معاشی فائدے پہنچاتے ہیں۔ یہ خریدوفروخت کے ماہر ہیں۔ انہیں اس نظام کی تمام چالاکیاں معلوم ہیں اور ان کا خوب استعمال کرتے ہیں۔
مذہبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام سر فہرست ہیں، آج امیر ترین سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ مذہبی دہشتگردی کو سیاسی کور فراہم کرتی ہیں اور مدرسوں کی مدد سے اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ زیادہ تر مدرسے حتمی طور پر مذہبی جنونیت کو فروغ دیتے ہیں اور پھر ان میں سے ہی خودکش نوجوانوں کی مسلسل زنجیر بنی رہتی ہے۔
ایک بہت بڑے جنازہ ان کو کسی حد تک عوامی سیاسی پلیٹ فارم پر لے آیا۔ اس جنازے کو بہت بڑا کرنے میں اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار کا بڑا ہاتھ تھا
ان مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں 2018 کے عام انتخابات میں اضافے کو ابھی سے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاوہ یہ جماعتیں پنجاب اور سندھ میں بھی قابل ذکر ووٹ حاصل کر سکتی ہیں۔
تحریک لبیک مذہبی گروہوں میں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ یہ وہ مذہبی گروہ ہے جو سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد کھل کر منظر عام پر آیا۔ ایک بہت بڑے جنازہ ان کو کسی حد تک عوامی سیاسی پلیٹ فارم پر لے آیا۔
اس جنازے کو بہت بڑا کرنے میں اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار کا بڑا ہاتھ تھا جس نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ تین دن تک اس کی تیاری کر لیں۔ پاکستان بھر سے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان جوق در جوق اس جنازے میں شریک ہوئے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر مریم نواز کا خاوند کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر اس قاتل کی جس طرح تعریف کرتا رہا وہ بھی اس گروہ کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوا۔
مذہبی جنونیت وہ بھوت ہے جو پاکستانی ریاست نے پالا اور اب ان کے کنٹرول سے باہر ہے
مذہبی جنونیت اب ایک ایسی حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ اگرچہ یہ ریاست کی مدد سے ابھریں مگر اب کافی حد تک یہ آزاد سیاسی حیثیت میں کام کر رہی ہیں۔
یہ وہ بھوت ہے جو پاکستانی ریاست نے امریکی سامراج کی مدد سے پالا اور اب کافی حد تک ان کے کنٹرول سے باہر اپنی وحشت پھیلا رہا ہے۔ اس مذہبی جنونیت نے نہ صرف انتہاپسندی کی نئی جہتوں کی تشکیل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا جنہوں نے انہیں کھل کر یا چھپ کر سیاسی و معاشی طور پر مدد کی۔
تاہم خطرے کی جو گھنٹی خودکش دھماکوں، جسمانی حملوں، بم دھماکوں اور قتل وغارت کے دیگر ہتھیاروں سے گلی محلوں میں بجائی جا رہی تھی وہ اب پارلیمانی میدان میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=TBSjbpoXObw
جس تنظیم کو ریاست کے کچھ حلقوں نےدوسرے ملکوں میں "جہادی" کارروائیوں کے لئے پال رکھا تھا اور اسے دوسری سیکورٹی لائن قرار دے کر مکمل حمایت دی جا رہی تھی وہ اب پارلیمانی میدان میں بھی ان کی مدد سے کچھ کرنے کے درپے ہے۔ یہ کوئی وقتی ابھار نہیں اور نہ ہی ایک حلقے میں مسلم لیگ نواز کو مزا چکھانے کے لئے کیا گیا ہے۔ بلکہ اسے ایک ابتدائی تجربے کے طور پر لاہور جیسے اہم شہر میں NA 120 کے ضمنی انتخاب میں آزمایا گیا۔ اب عام انتخابات 2018 میں دوسری جگہوں پر بھی اسے پیش کیا جائے گا۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں نے ان مذہبی جنونی قوتوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے
تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں رائیٹ ونگ قوتوں نے ان مذہبی جنونی قوتوں کے ساتھ نہ صرف اپنے قریبی روابط رکھے بلکہ ان کی سرگرمیوں پر اپنی آنکھیں بند رکھیں اور ان کو سیاسی طور پر مظبوط کیا۔
رائیٹ ونگ قوتوں کا فروغ آج بائیں بازو کے لئے سب سے اہم چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ یہ ان کی زندگی یا موت کا سوال ہے مگر اسے جس طریقے سے زیر بحث لا کر اس بارے لائحہ عمل اور اس سے نپٹنے کے لئے جو حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہیے تھی اس کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔
آج ضرورت ہے کہ پاکستان کے تمام ترقی پسند، سوشل ڈیموکریٹس، سماجی تحریکیں، چھوٹے، بےزمین کسان اور مزارعین تنظیمیں، پروگریسو ٹریڈ یونینیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور گروپس بحث ومباحثہ کے بعد ایک مشترکہ سیاسی پروگرام، پلان آف ایکشن اور حکمت عملی تشکیل دیں۔
ضروری ہے کہ بائیں بازو اور ان کی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں ملک میں موجود طبقاتی تحریکوں اور مزاحمتی قوتوں کو مضبوط کریں، ان کی مدد کریں اور ان کو وہ نظریاتی سوشلسٹ بنیادیں فراہم کریں جن کی مدد سے وہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصال کی بنادوں کو سمجھ کر اپنا لائحہ عمل تشکیل دے سکیں۔
یہ کام سٹڈی سرکلز، لیکچرز، ورکشاپس اور سیمینارز کے علاوہ بڑے جلسے جلوسوں اور کانفرنسوں کے زریعے کیا جا سکتا ہے۔ بایاں بازو تاریخی بحثوں میں الجھ کر اپنے آپ کو گروہوں اور گروپوں میں تقسیم کرنے کی بجائے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا اتحاد قائم کرے، ایک رد انقلابی دور میں انقلابی دور کے تجزیوں کی بجائے رد انقلابی ادوار میں انقلابیوں کی حکمت عملی اور ایکشن کو دیکھا جائے۔
رائیٹ ونگ کے جواب میں ہمیں ایک مشترکہ لائحہ عمل عوام میں لے جانے کی ضرورت ہے۔ رائیٹ ونگ کا فروغ پاکستان کو مزید جنگوں، سول جنگوں اور خون خرابہ کی طرف لے جائے گا۔ آمریت کی جڑیں اسی سیاسی سوچ میں دبی ہوئی ہیں۔ آمر فوجی جرنیل ضیاالحق نے مذہبی جنونیت کے فروغ کا جو بیج بویا تھا وہ آج تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
بہت ہو چکی، اب جاگنے اور کچھ کرنے کا وقت ہے۔