افریقی امریکیوں کو انگریز غلامی کی غرض سے افریقی ریاستوں سے اغوا کر کے امریکہ لائے تھے۔
تقریباً دو سو سال غلامی کی زندگی گزارنے کے بعد امریکی سول وار کے بعد عظیم امریکی صدر ابراہم لنکن نے 1863 میں قانونی طور پر غلامی ختم کر دی لیکن سفید فام امریکی سیاہ فام امریکیوں کو اپنے برابر کے شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس طرح 1877 میں ایک اور قانون منظور ہوا۔ جس کو ’جم کرو (Jim Crow)‘ قوانین کہتے ہیں۔ اس قانون کا مقصد تھا ’علیحدہ لیکن برابر‘۔ ان قوانین کی رو سے سیاہ فام باشندوں کو برابر کی صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، ٹوائیلٹ کی سہولیات تو میسر ہو گئیں لیکن سفید فام باشندوں سے علیحدہ۔
1950 کی دہائی میں ایک سیاہ فام امریکی لڑکی نے سفید فام بچوں کے سکول میں داخلہ لیا۔ جس پر سکول کے سفید فام بچوں نے بہت تشدد کیا اور اس لڑکی کو سکول سے نکال دیا۔ یہیں سے سیاہ فام امریکیوں نے اپنے حقوق کے لئے احتجاج شروع کیا جو بعد میں جا کے 1960 کے دہائی میں عظیم ’سول رائٹس موومنٹ‘ بن گئی اور اس موومنٹ یعنی تحریک کو عظیم سیاہ فام لیڈر ’مارٹن لوتھر کنگ جونیئر‘ لیڈ کر رہا تھا۔ اسی تحریک کے دوران مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی مشہور زمانہ تقریر I have a dream بھی کی تھی جس نے سیاہ فام امریکیوں کو ایک نیا خواب دکھایا اور اس تحریک کے نتیجے میں سیاہ فام امریکیوں کو ووٹ کا حق حاصل ہوا۔ اور ساتھ ہی برابری کے حقوق بھی۔
یہی حقوق اور شعور ہیں جو آج جارج فلائیڈ کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج سے ٹرمپ انتظامیہ انتہائی مشکل میں ہے۔ اب تک پولیس اور انتظامیہ کے بڑے بڑے افسر اپنے عہدوں سے استعفے دے چکے ہیں۔ اور پورا امریکی پولیس ڈیپارٹمنٹ معافی مانگ چکا ہے۔
اس وقت پورے امریکہ میں بس ایک ہی نعرے کے گونج ہے: Black Lives Matter، یعنی سیاہ فام افراد کی زندگیوں کی بھی اہمیت ہے۔
صرف امریکہ ہی نہیں دنیا کے کونے کونے میں آپ کو یہی نعرہ دکھائی دے گا۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سے لوگوں نے اپنے سوشل میڈیا پروفائلز پر یہی نعرہ لگایا ہوا ہے۔
اب اگر ہم اسی حالات کا موازنہ اپنے ملک سے کریں تو ہم پختون اور بلوچوں کے ساتھ سیاہ فام امریکیوں سے کچھ مختلف رویہ تو نہیں اپنایا گیا۔ ایک راؤ انوار 444 لوگوں کو قتل کر کے، بادشاہوں کے طرح زندگی جی رہا ہے۔ بلوچستان میں ایک پولیس آفیسر نے سب کے سامنے پروفیسر ارمان لونی کو قتل کیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ خڑ کمر میں نہتے پختونوں اور پارلیمنٹ کے منتحب نمائندوں پر گولیاں برسائی گئیں لیکن ہم سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ وزیرستان میں ایک گھر سے 18 جنازے اٹھائے جا چکے ہیں لیکن ہم کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔
اسی طرح روزانہ بلوچستان سے تعلیم یافتہ نوجوان جبری طور پر اغوا ہو رہے ہیں۔ اور جب بلوچ بہنیں ماہ رنگ بلوچ، حسیبہ قمرانی، جلیلا حیدر وغیرہ احتجاج کریں تو ہم کہتے ہیں کہ ’ بلوچستان دا مسئلہ کی اے؟‘
کئی مہینوں سے ماما قدیر بلوچ وغیرہ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچ مسنگ پرسنز کے لئے احتجاجی کیمپ قائم کیا ہوا ہے، لیکن کیا آج تک پاکستانی میڈیا نے کبھی کوریج دی؟
اب اس بات کو سمجھنے کے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کیوں اتنا بے حس ہو چکے ہیں، کہ اپنوں کے لئے بھی آواز نہیں اٹھا سکتے۔ اس بے حسی کی سب سے بڑی وجہ شعور کی کمی اور اجتماعی یادداشت کا نہ ہونا ہے۔ اجتماعی یادداشت میں تاریخ، کلچر، زبان وغیرہ آتے ہیں۔ یہی سب کچھ اس ریاست نے جھوٹی نصای کتب کے ذریعے ہمارے ذہنوں سے محو کر دیا۔ دوسری بات اپنے حقوق سے بے خبر ہونا بھی ہے۔
اب اگر پختونخوا میں اسفندیار ولی خان، آفتاب شیرپاؤ، یا پی ٹی ایم والے اور بلوچستان میں ماما قدیر بلوچ، جلیلہ حیدر، محمود خان اچکزئی وغیرہ اپنے حقوق کے بات کریں تو ہمارے اپنے ہی لوگ ان کو ایجنٹ اور غدار سمجھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پختون اور بلوچ بھی کبھی سیاہ فام امریکیوں کی طرح احتجاج کر پائیں گے؟ کیا ہم میں بھی کبھی اتنا اتحاد اور شعور آئے گا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے سامنے اپنے لاپتہ پیاروں کے لئے احتجاج کریں؟
جس طرح سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ سفید فام امریکیوں نے بھی احتجاج میں شرکت کی، کیا ہمارے پنجابی بھائی بھی ہم پختون اور بلوچوں کے لئے کبھی آواز اٹھائیں گے؟