فیصلے کے آنے کے بعد سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلے پر ایک طویل بحث جاری ہے اور اکثر حلقے فیصلے کو تنقید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی دوران ایک پرائیویٹ ٹی وی کا ماضی کا ایک کلپ بھی نظر سے گزرا جس میں جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم فرما رہے ہیں کہ ’’جج پر انصاف کرنا لازم تو ہے مگر جب اپنی نوکری کا معاملہ آتا ہی تو تمام جج صاحبان اتنے بہادر نہیں ہوتے کہ اپنی نوکری کو قربان کر دیں اور انصاف کرتے رہیں، میں آپ کو سچی بات بتا رہا ہوں‘‘۔ نسیم حسن شاہ اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی۔ اور بہادری کا خوب مظاہرہ کر کے پھانسی کے حق میں فیصلہ کرنے والوں میں شامل تھے، کیوں کہ نوکری کا جو معاملہ تھا۔
عدلیہ کی سیاه تاریخ میں اب تو ایک طویل قطار ہے جس پر اگر ہم لکھنا شروع کریں تو شاید صفحات کم پڑ جائیں۔ چند چیدہ چیدہ فیصلوں پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔
1) مولوی تمیز الدین کیس
مولوی تمیز الدین کیس جس کا فیصلہ وفاقی عدالت ( سپریم کورٹ) کے سربراہ جسٹس محمد منیر نے لکھا اور سیاہ تاریخ کا آغاز ہوا۔ 1954 میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی جب توڑ دی تو مولوی تمیز الدین نے اس اقدام کو چیلنج کر دیا، جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا سہارہ لیا اور گورنر جنرل کے فیصلے کو عدالتی تحفظ دیا۔ جسٹس اے آر کارنیلس واحد جج تھے جنہوں نے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔
نظریہ ضرورت کے بارے میں طویل بحثیں موجود ہیں اور چیف جسٹس افتخار چودھری کیس میں کہا گیا کہ ہم نے اسے ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا، لیکن اس کے بعد بھی نظریہ ضرورت کے تحت بہت سے فیصلے دیے گئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہائی کورٹ اسمبلی توڑنے کے خلاف فیصلہ دے چکی تھی۔
2) بھٹو پھانسی کیس
ذوالفقار علی بھٹو جو پاکستان کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم تھے جنھیں جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ایک من گھڑت کیس میں موت کی سزا سنائی اور انہیں فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ بعد میں بنچ کے رکن اور پھانسی کے حق میں فیصلہ دینے والے جج نسیم حسن شاہ نے تسلیم کیا کہ یہ سزا غلط دی گئی اور وہ اس غلط فیصلے میں شامل تھے۔ اس فیصلے نے ایک نیا ٹرینڈ دیا اور تقریباً ہر جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کو اب تک جعلی اور گھڑے ہوئے کیسز کے ذریعے گھر بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔
3) نصرت بھٹو کیس
نصرت بھٹو کیس پاکستان کی عدلیہ کی سیاہ تاریخ میں ایک نیا باب ثابت ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو نے نہ صرف اپنے شوہر کی غیر قانونی قید کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا بلکہ ضیاالحق کی بغاوت اور مارشل لا لگانے کو بھی چیلنج کیا۔ جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں نہ صرف نظریہ ضرورت کے تحت بغاوت اور مارشل لا کو جائز قرار دیا گیا بلکہ لاطینی قوانین کے اس اصول جس میں کہا گیا کہ ’’ salus populi est supreme lex‘‘، یعنی عوام کی بہبود اعلیٰ ترین قانون ہے۔ قانون کا مقصد عوام کی بہبود ہے کو فیصلے کی بنیاد بنایا گیا اور اسے اسلامی قوانین کے مطابق قرار دیا بلکہ کہا گیا کہ یہ اصول دوسرے قوانین میں بھی تسلیم شدہ ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ضیاالحق نے عوام کی کتنی خدمت کی اور آج پاکستان جس حال میں ہے اس کی بنیاد ایوب سے لے کر اب تک تمام آمروں کا حصہ ہے لیکن ضیاالحق اور ایوب ان میں سر فہرست رہیں گے۔
ضیاالحق کی آٹھویں ترمیم اور اٹھاون دو بی کی شق نے نہ صرف 1973 کے آئین کی شکل بگاڑی بلکہ اس کے اپنے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو گھر بھیج دیا گیا اور اس کے بعد بینظیر بھٹو کو دو بار اور نواز شریف کو ایک بار اسی شق کے ذریعے فارغ کیا گیا۔ نواز شریف کو دوسری بار مشرف کی بغاوت اور تیسری بار سپریم کورٹ کے پانامہ لیکس کیس میں فارغ کیا گیا۔
4) ظفرعلی شاہ کیس
1999 میں نواز شریف کے خلاف جنرل مشرف کی بغاوت کے بعد نون لیگ کے ظفر علی شاہ جنھیں نواز شریف کے تیسرے دور میں نظر انداز کیا گیا، نے مشرف کے مارشل لا کے خلاف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں درخواست دی جس پر سپریم کورٹ نے نہ صرف مارشل لا کو جائز قرار دیا بلکہ آمر جنرل مشرف کو اختیار دیا کہ وہ آئین میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کر سکتا ہے، جس کا بنیادی مقصد اس کے اقتدار کو طول دینا تھا۔ جسٹس افتخار چودھری بھی اس بنچ کا حصہ تھے۔
5) جسٹس افتخار چودھری کیس
جسٹس افتخار چودھری سے جب مشرف نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا تو حلف کے اختتام پر جنرل مشرف اور افتخار چودھری کے درمیان دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ جسٹس افتخار نے جاتے ہوئے مشرف سے انگریزی میں کہا کہ جس کے معنی تھے ’’سر آپ صرف میرے پیچھے کھڑے ہوں بس‘‘ اور پھر سب نے دیکھا کہ افتخار چودھری کے ساتھ کیا ہوا اور پھر اسی افتخار چودھری نے اپنے عہدے کو کس طرح اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا۔
2007 میں معطلی کے بعد افتخار چودھری کے وکیل اعتزاز احسن نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دیکھا کہ کونسل میں شامل جج ذہن بنا چکے ہیں کہ فیصلہ افتخار چودھری کے خلاف دینا ہے تو انہوں نے سپریم کورٹ میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی رکوانے کی درخواست دی کہ ریفریس بدنیتی پر مبنی ہے اس لئے اس کی کارروائی روکی جائے۔ 13 رکنی بینچ جس کے سربراہ جسٹس خلیل رمدے نے سرکار کو متعدد رعایتیں دیں۔
مثلاً سوال آیا کہ چیف جسٹس کی معطلی کے ساتھ ہی قائم مقام چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب میں چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کیسے اسلام آباد پہنچے؟ شہری ہوابازی سے لاگ بک منگوانے کی بات ہوئی تو جسٹس خلیل رمدے نے انکار کر دیا، پھر ریفرنس کی کاپی منگوائی گئی تو اصل کے بجائے ڈرافٹ بھیجا گیا اور اس میں ججوں کو ننگی گالیوں پر مبنی پمفلٹ اور ججوں کے گھروں کے اندر کی تصویریں شامل کی گئیں۔ عدالت نے معمولی جرمانہ کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ پھر مختصر فیصلہ سنا کر افتخار چودھری کو بحال کر دیا گیا لیکن تفصیلی فیصلہ نہ دیا گیا اور معاملہ یہاں تک لٹکا کہ افتخار چودھری اور دوسرے ججوں کو ایک بار پھر گھر بھیج کر نظر بند کر کے ایمرجنسی لگا دی گئی۔ اس کیس اور ایمرجنسی کیس کی تمام کارروائی میں نے کور کی تھی۔ اس پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
6) جنرل مشرف دہرا عہدہ کیس
2007 میں، 2002 میں منتخب کی گئی اسمبلی اپنی مدت ختم کرنے والی تھی تو چونکہ مشرف کو اندازہ تھا کہ اگلی اسمبلی سے وہ دوبارہ وردی میں صدر منتخب نہیں ہو سکے گا تو فیصلہ کیا کہ اسی اسمبلی سے وہ وردی میں اپنے آپ کو صدر منتخب کرا لے جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جسٹس خلیل رمدے کی قیادت میں بینچ نے طویل بحث کے بعد فیصلہ دیا کہ وہ انتخاب لڑ لیں، لیکن اس کے نتائج کا اعلان اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ عدالت کیس کا فیصلہ نہ کر دے۔ عدالت نے تین سینیئر ترین وکلا چودھری اعتزاز احسن، ایس ایم ظفر، اور عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم کو عدالت کی معاونت کے لئے مقرر کیا، ان میں سے چودھری اعتزاز اور ایس ایم ظفر نے مشرف کی وردی میں دوسری بار ایک ہی اسمبلی منتخب ہونے کی شدید مخالفت کی۔ حفیظ پیرزادہ نے حمایت کی۔ اس کے باوجود مشرف کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی۔ بس کیا تھا کہ ملک میں ایک بار پھر ایمرجنسی لگا کر مشرف نے گھر جاتی ہوئی اسمبلی سے اپنے آپ کو دوسری بار صدر منتخب کرا لیا۔ خلیل رمدے کے لٹکتے فیصلے نے پورے ملک کو ایک بحران کا شکار کر دیا۔
قصہ مختصر، چاہے یوسف رضا گیلانی کے ایک خط نہ لکھنے کا معاملہ ہو یا نواز شریف کو پانامہ گیٹ میں کرپٹ یا ڈان قرار دے کر فارغ کرنا ہو، یا پھر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا سلسلہ ہو، یا پھر اپنے ہی بھائی جج کی بیوی کے ٹیکس معاملات ہوں، ججوں نے اپنی نوکری کو اولیت دی، نہ کہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلے پر عمل درآمد کی رپورٹ آنے تک کیس کو زندہ رکھنا چاہے تھا، جیسا کہ ان کے اپنے خلاف کیس کو اب تک زندہ رکھا گیا ہے۔ اس وقت تک کہ جب تک ان کی اہلیہ کے ٹیکس کے معملات کو سپریم جوڈیشل کونسل کلیئر نہیں کر دیتی۔
بعض ماہرین تو یھاں تک کہہ رہے ہیں کہ ایک نیا ریفرنس بن سکتا ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ جج جس کے خلاف ریفرینس بد نیتی پر مبنی قرار پایا وہ اب بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے اور جو بد نیت ٹھہرے ان کے بارے میں کوئی سزا تجویز نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے تفصیلی فیصلے میں اس کی وضاحت ہو، جس کا سب کو انتظار ہے۔