یاد رہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی وبا نومبر دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی تھی۔ تاہم اس کے آغاز سے ہی امریکا اور چین جو کہ دو عالمی طاقتیں ہیں نے ایک دوسرے پر وائرس کے آغاز سے متعلق ذمہ داری ڈالنا شروع کردی تھی۔
امریکا اور چین اس معاملے پر مسلسل لڑ رہے ہیں
اس حوالے سے سابق امریکی صدر ٹرمپ کا دور اپنی گرما گرمی کے حوالے سے اہم رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال مارچ میں اپنی ایک ٹویٹ میں کرونا وائرس کو ’چینی‘ وائرس کہا تو چین نے سخت اعتراض کیا تھا۔ چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کو تنبیہ کی ہے کہ وہ چین کو گالی دینے سے پہلے ’اپنے کام پر دھیان دیں۔
جبکہ اس سے پہلے چین کی وزارت خارجہ نے کرونا وائرس کو ایک سازش بتاتے ہوئے امریکی فوج پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اس وائرس کو اس کے علاقے میں لے کر آئے۔
ایک اور اہم موقع پر جب اقوام متحدہ نے کرونا کے پھیلاو کے حوالے سے ممالک کی سیاسی قیادت کا ایک ورچوئل اجلاس بلایا اور وبا کو قابو میں لانے کی کوششوں میں سیاسی تعاون کے فقدان کی شکایت کی تھی تب بھی امریکا اور چین کے مندوب ایک دوسرے پر سرد گرم ہوتے پائے گئے۔
دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکا اور چین نے اقوام متحدہ کی ورچوول میٹنگ کے دوران کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں ایک دوسرے پر سخت حملے کیے۔ امریکا اور چین نے کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے نمٹنے میں غلط طریقے اپنانے کے لیے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے کی کوشش کی اور سخت الزامات عائد کیے۔ اقو ام متحدہ میں چین کے سفیر نے امریکا پر حملہ کرتے ہوئے کہا”آپ دنیا کے لیے پہلے ہی بہت زیادہ پریشانیاں کھڑی کرچکے ہیں۔
الزامات اور جوابی الزامات کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے کووڈ 19کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے خاطر خواہ بین الاقوامی تعاون کے فقدان کی شکایت کی۔ دو روز قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقو ام متحدہ سے خطاب کے دوران دنیا بھر میں 'پلیگ‘ پھیلانے کے لیے چین کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ نے کیا تنبیہہ کی
اقوام متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ اس وائرس کو کسی خاص برادری یا علاقے سے جوڑ کر دیکھانا غلط ہے۔ متعدد امریکی اہلکار اسے ’چینی وائرس‘ کہہ رہے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو اسے کئی بار ’ووہان وائرس‘ کہہ چکے ہیں۔