وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے ساتھ بات چیت کے آخری دور کے بعد میٖڈیا کو بتایا کہ آئی ایم ایف مالیاتی اہداف پر اسٹیٹ بینک سے مشاورت کرے گا۔ معاہدے کے بعد بجٹ کا حجم 9.9 ٹریلین روپے ہو جائے گا جو کہ وزیر خزانہ کی طرف سے 10 جون کو پیش کیے گئے بجٹ کے مقابلے میں تقریباً 400 ارب روپے تک بڑھ جائے گا۔
مفتاح اسماعیل نے 10 جون کو 9.5 ٹریلین روپے کا بجٹ پیش کیا تھا جو اس مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ سے بمشکل 4 فیصد زیادہ تھا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا محصولات کا ہدف بجٹ میں تجویز کردہ 7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں بڑھا کر 7.440 ٹریلین روپے کر دیا گیا ہے، اس کے لیے 24 فیصد شرح نمو درکار ہے جو ڈبل ڈیجٹ انفلیشن کے دوران مسئلہ نہیں ہونی چاہیے۔
علاوہ ازیں بجٹ خسارے کا ہدف بھی برقرار ہے جو 3.8 ٹریلین یا مجموعی ملکی پیداوار کا4.9 فیصد ہے۔ حکومت نے سالانہ 150 ملین روپے کمانے والے افراد اور کمپنیوں پر ایک فیصد انکم سپورٹ لیوی، سالانہ 200 ملین روپے آمدن والوں پر 2 فیصد، 250 ملین روپے سالانہ آمدنی والے افراد پر 3 فیصد اضافی اور 300 ملین روپے سالانہ کمانے والوں پر 4 فیصد اضافی شرح عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قبل ازیں بجٹ میں حکومت نے صرف 300 ملین روپے سالانہ سے زائد کمانے والوں کے لیے ریونیو کی شرح 2 فیصد تجویز کی تھی جس سے 38 ارب روپے اضافی حاصل ہونا تھے، علاوہ ازیں حکومت کو آئی ایم ایف کے سالانہ ٹیکس استثنیٰ کی حد کو گزشتہ سال کی 6لاکھ روپے کی سطح پر برقرار رکھنے کے مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔
بجٹ میں 12 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن مفتاح اسماعیل نے منگل کو آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا اور 6لاکھ سے12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ اب بھی اس شرح کا نصف ہے جو اتنی آمدنی والے لوگ اس وقت ادا کر رہے ہیں۔ زیادہ آمدنی والے طبقے کے انکم ٹیکس درجوں(سلیبز) میں بھی کافی اضافہ کیا جائیگا۔
آئی ایم ایف اب مرکزی بینک کے ساتھ مل کر مقامی اثاثوں کے بجائے نیٹ بیرونی اثاثوں،نیٹ انٹرنیشنل ریزروز اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اہداف کوحتمی شکل دے گا۔ وزیرخزانہ نے امید ظاہرکی ہے کہ اب عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے میمورنڈم فاراکنامک اینڈ فنانشنل پالیسیز(MEFP) پیر تک موصول ہوجائے گا۔اگرچہ یہ براڈ ایگریمنٹ سٹاف لیول معاہدے کیلئے ناکافی ہے تاہم اس سے زرمبادلہ کی مارکیٹ میں چارماہ سے پھیلی ہوئی بے یقینی کی کیفیت ختم ہوجائے گی جس کی وجہ سے ملکی کرنسی کوبھاری قیمت چکانا پڑی ہے اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد ختم ہونے سے مہنگائی کی لہر آئی ہوئی تھی۔
اس معاہدے میں تاخیر کی تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کو بھی سیاسی قیمت چکانا پڑ رہی تھی۔تحریک انصاف متعددکوششوں کے باوجود آئی ایم ایف کو کسی معاہدے پر راضی کرنے میں ناکام رہی تھی ۔اب مسلم لیگ (ن ) کی قیادت میں اتحادی حکومت بھی اس معاہدے میں توقع سے زیادہ تاخیر کر رہی تھی۔
ایک روز قبل ہی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک دن میں معاہدہ ہونے کی خوشخبری سنائی تھی کیونکہ حکومت نے ٹیکس ٹارگٹ بڑھا کر 7.44 ٹریلین روپے تک لے جانے اور کچھ سرکاری اخراجات کم کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔آئی ایم ایف نے بھی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے ان اقدامات کو تسلیم کرلیا تھا اور وہ یکم جولائی سے پٹرول پر30 روپے فی لٹرلیوی عائد کرنے اور ساڑھے 10 فیصد سیلزٹیکس لگانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔پٹرولیم پر جی ایس ٹی کا فوری نفاذ نہیں ہوگا۔
بجٹ کے حجم میں9.9 ٹریلین روپے تک اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ حکومت کے تنخواہوں اور پنشن پر اخراجات بڑھ گئے تھے اور اس نے 200 ارب روپے ایمرجنسی اخراجات کیلئے رکھے تھے۔پنشن بجٹ ہی بڑھ کر609 ارب تک جا چکا ہے،جو10جون کو پیش کیے گئے بجٹ میں 530 ارب روپے تجویز کیا گیا تھا۔ حکومت کے سول اخراجات ہی بڑھ کر 600 ارب روپے ہوچکے ہیں جواگلے سال کے بجٹ میں550 ارب روپے بتائے گئے تھے۔
آئی ایم ایف نے حکومت کی اس بجٹ تجویزکو بھی مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں 200 ارب روپے اکٹھے کریگی کیونکہ یہ معاملہ ابھی متنازع اور عدالتوں میں اس کا کیس زیرسماعت ہے۔
عالمی ادارے کا ساتواں ریویو پروگرام گزشتہ مارچ سے زیرالتوا ہے جب سابقہ حکومت نے توانائی پر سبسڈی کے ساتھ ایک اور ایمنسٹی سکیم دینے کا اعلان کردیا تھا۔اس اعلان کے بعد آئی ایم ایف مذاکرات سے باہر ہوگیا تھا۔عالمی ادارے کے ساتھ طے پانے والے 6 ارب ڈالر کے معاہدے میں سے 3 ارب ڈالر ابھی تک پاکستان کو نہیں دیئے گئے۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ انہوں نے عالمی مالیاتی ادارے سے پروگرام کا حجم 8 ارب ڈالر کرنے اور اس کی مدت اگلے سال جون تک بڑھانے کی درخواست کی ہے ۔اس معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑیں گی۔اب براڈ بیسڈ ایگریمنٹ اور سٹاف لیول ایگریمنٹ کا انحصار آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری پرہوگا۔
حکومت پاکستان کو اب فنانس بل 2022ء سمیت نظرثانی شدہ بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرکے اس کی منظوری لینا پڑے گی۔یہ بجٹ اس ماہ کے آخر تک منظور بھی کروانا ہوگا تاکہ یکم جولائی سے اس کا نفاذ ہوسکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں امریکہ جو کہ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہے نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایف بی آر کا نیا بجٹ ٹارگٹ ڈالر کے اوسط ایکسچینج ریٹ 212 روپے فی ڈالر کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔
ایف بی آر کی وصولیوں کا نیا ہدف 7.440 ٹریلین روپے ہوگا جوموجودہ ٹارگٹ سے24 فیصد یا1.42 ٹریلین روپے زیادہ ہے ۔منگل تک ایف بی آر ٹیکسوں کی مد میں 5.86 ٹریلین روپے اکٹھے کرچکا تھا۔کسٹم ڈیوٹیزکی وصولی کا ہدف جو953 ارب روپے تھا 100 ارب روپے تک جاسکتا ہے۔اگلے سال کی کسٹم ڈیوٹی کا ہدف 1.05ٹریلین روپے ہوسکتا ہے۔حکومتی آمدن بڑھانے کیلئے کچھ اضافی اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں۔