واپڈا کی نا اہلی، پاکستان گلیشیر مانیٹرنگ کا 60 لاکھ یورو کا بین الاقوامی منصوبہ شروع نہ ہوسکا

واپڈا کی نا اہلی، پاکستان گلیشیر مانیٹرنگ کا 60 لاکھ یورو کا بین الاقوامی منصوبہ شروع نہ ہوسکا
پاکستان میں گلیشیر کے علاقوں میں موسمی حالات اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا جائزہ لینے کے لئے سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) نے سال 2016 میں بین القوامی مالی تعاون سے " پاکستان گلیشیر مانیٹرنگ نیٹ ورک" کے قیام کی منظوری دی تھی۔ یہ منصوبہ جرمنی کے KFW نامی ادارے کے مالی معاونت سے شروع ہونا تھا۔ اس منصوبے کے لئے بین الاقوامی ادارے نے 60 لاکھ یورو کی گرانٹ بھی جاری کی تھی۔ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے مطابق اس منصوبے پر 89 کروڑ روپے کی لاگت آنی تھی۔

نیا دور میڈیا کے پاس موجود دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ واپڈا کی جانب سے نااہل اور غیرتجربہ کار کنسلٹنٹ کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی وجہ سے یہ منصوبہ تاحال شروع نہیں کیا جاسکا۔ وزارت آبی وسائل اور فیڈرل فلڈ کمیشن نے منصوبہ تاحال شروع نہ ہونے پر ایک انکوائری مکمل کی۔

نیا دور میڈیا کے پاس موجود انکوائری دستاویزات کے مطابق جرمنی کے KFW نامی ادارے نے پاکستان میں موسمی تغیرات خصوصاً گلیشیر کے علاقوں میں موسمی حالات اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا جائزہ لینے کے لیے حکومت پاکستان کو 60 لاکھ یورو کی گرانٹ فراہم کی تھی جس کے مطابق " پاکستان گلیشیر مانیٹرنگ نیٹ ورک" اور ریسرچ سنٹر کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس "مانیٹرنگ یونٹ" سے موسمی تغیرات اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا جائزہ لیا جائیگا۔ جبکہ ریسرچ سنٹر میں موسمی تغیرات پر تحقیق ہوگی۔

اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے MS-AHT نامی کنسلٹنٹ کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھی۔ کنسلٹنٹ پر ذمہ داری عائد تھی کہ اس منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے ایک رپورٹ تیار کرکے پیش کریگی مگر 6 سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ شروع نہیں ہوسکا۔

انکوائری دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے لئے ایک غیر تجربہ کار اور نااہل کنسلٹنٹ (MS-AHT) کی خدمات حاصل کی گئی اور اس سلسلے میں ان کو فنڈز بھی جاری کئے گئے۔ مگر اس کنسلٹنٹ کمپنی کو ایسے پراجیکٹس کرنے کا تجربہ نہیں تھا جن کی وجہ سے 6 سال گزرنے کے باوجود بھی یہ منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا۔

اس منصوبے سے اپرانڈس بیسن کے گلیشیر کے علاقوں میں موسمی حالات اور دریائوں کے پانی کو مانیٹر کرنے میں مدد ملے گی۔ اس منصوبے کے تحت گلیشیرز کی مانیٹرنگ کے لئے آٹومیٹک ریور لیول ریکارڈرز اور آٹومیٹک موسم سٹیشنز نصب کئے جائیں گے۔


انکوائری دستاویزات کے مطابق اس پراجیکٹ پر عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوسکا اور 31 دسمبر 2021 تک 60 لاکھ یورو گرانٹ کا صرف چار فیصد استعمال کیا گیا، جبکہ 60 کروڑ پچاس لاکھ پچاس روپے کا گرانٹ تاحال استمعال نہیں کیا گیا۔

؎اس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انکوائری کو جواب دیتے ہوئے کنسلٹنٹ کمپنی اور سرکاری حکام نے کہا کہ یہ منصوبہ ٹیکنیکل تھا اور کنسلٹنٹ کمپنی اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے لئے نہ مجوزہ دستاویزات تیار کرسکی اور نہ ہی سائٹس کا انتخاب کرسکی۔ انکوائری کمیٹی اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور ہدایات جاری کرتی ہے کہ غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

انکوائری دستاویزات کے مطابق کنسلٹنٹ کمپنی نے اس پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور یہ منصوبہ شروع کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جبکہ واپڈا کو ایسے منصوبے پر کام کرنے کا تجربہ نہیں تھا اور واپڈا کی نااہلی کی وجہ سے 6 سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ تاحال شروع نہیں ہوسکا۔

دستاویزات کے مطابق واپڈا نے "گلیشیر مانیٹرنگ ریسرچ سنٹر" کو منصوبہ شروع کرنے کے لیے ماہرین فراہم نہیں کئے اور نہ ہی کوئی ماہر کمپنی کی خدمات لی گئی جس سے اس منصوبے کام شروع کیا جاسکے۔

دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے تخت لاہور اور سکردو میں دو گلیشیر مانیٹرنگ ریسرچ سنٹر کا قیام عمل میں لانا تھا مگر اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔


دستاویزات کے مطابق انکوائری کمیٹی یہ ہدایات جاری کرتی ہے کہ اس وقت کے جی ایم واپڈا محمد نواز پر ذمہ داری عائد کرکے ان کے خلاف کاروائی کی جائے کیونکہ ان کی نااہلی کی وجہ سے یہ پراجیکٹ سست روی کا شکار ہوا اور اس منصوبے پر کام شروع نہیں ہوسکا اور نہ ہی بین القوامی فنڈ استعمال کیا گیا۔

انکوائری دستاویزات کے مطابق (MS-AHT) کنسلٹنٹ کو جاری کئے گئے فنڈز واپس لئے جائے اور ایسے نااہل اور غیر تجربہ کار کنسلٹنٹ کمپنی کو مستقبل میں کوئی پراجیکٹ نہ دیا جائے۔ اس کنسلٹنٹ کمپنی کے خلاف منصوبے پر سنجیدگی نہ دکھانے اور منصوبہ شروع نہ کرنے کی پاداش میں کاروائی کی جائے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔