فشریز افسر اور اہلکاروں کی جانب سے بنگالی ماہی گیروں پر تشدد کیخلاف پسنی میں احتجاجی مظاہرہ

03:55 PM, 22 Jun, 2022

راشد حیدر
فشریز افسر اور اہلکاروں کی جانب سے بنگالی ماہی گیروں پر تشدد کے خلاف پسنی میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پسنی شہر کو ایک بار پھر بدامنی کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ واقعہ میں ملوث فشریز آفسر کا فوری طور پر تبادلہ کیا جائے۔

تفصیل کے مطابق مولانا ذاکر حسین کی سربراہی میں پسنی شہر میں بدامنی، سمندر میں ٹرالر مافیا کی یلغار اور فشریز افسر اور اہلکاروں کی جانب سے بنگالی ماہی گیروں پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر پسنی کے سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ، پسنی فش ہاربر کی عدم بحالی، فشریز افسر اور اہلکاروں کی جانب غیر مقامی بنگالی ماہی گیروں پر تشدد اور ظالمانہ اقدامات کے خلاف نعرے درج تھے۔

احتجاجی مظاہرین سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پسنی فشریز افسر اور اہلکاروں کی جانب سے غیر مقامی بنگالی ماہی گیروں پر تشدد غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور بلوچی روایات سمیت ملکی آئین وقانون سے متصادم فعل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پسنی شہر میں عدم برداشت اور دوسروں کی تقدس پر چڑھائی کی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور چند عناصر کی جانب سے جان بوجھ کر پسنی شہر کو بدامنی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جو ناقابل برداشت عمل ہے جس کی ہم بھرپور مذمت کے ساتھ ان قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہو کر ان کا مقابلہ کرینگے۔

مقررین نے کہا کہ سمندر ہو یا بارڈر چاروں طرف سے ایک مخصوص مافیا کی جانب سے پسنی کے عوام کو معاشی حوالے سے تنگ کیا گیا ہے۔ پسنی فش ہاربر جو یہاں کے عوام کا اہم معاشی حب ہے، اسے جان بوجھ کر بدحالی کی طرف دھکیلا گیا ہے جس کی وجہ سے شہری دن بدن بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پسنی فشریز ڈیپارٹمنٹ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ کے روک تھام کے بجائے خشکی پر غیر مقامی بنگالی ماہی گیروں پر تشدد پر اتر آئے ہیں جو ملکی آئین اور قانون سمیت فشریز آرڈیننس کے خلاف بھی ایک متصادم وغیر قانونی عمل ہے جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر غیر مقامی ماہی گیروں کے خلاف غنڈہ گردی اور تشدد میں ملوث پسنی فشریز افسر کا تبادلہ کریں اور اہلکاروں کو سزا دیں۔ انہوں نے کہا اگر ان کا یہی رویہ قائم رہا تو ہم اپنے احتجاج کو وسعت دینگے اور ان کے خلاف غیر معینہ مدت تک دھرنا دینگے۔

مقررین نے مزید کہا کہ پسنی کے ریت متاثریں جو عرصے سے اپنی فریاد انتظامی اداروں کے ہاں احتجاج اور درخواست گزاری کی شکل میں ریکارڈ کر چکے ہیں، اس کے باوجود ان کی دادرسی نہیں کی جاتی جو انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پسنی ذرین ہاؤسنگ سکیم میں عام عوام نے پلاٹ کے حصول کیلئے اپنی جمع پونجی جمع کروائی ہوئی ہے مگر بدلے میں 20 سے 25 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود انہیں اُن کی زمین الاٹ نہیں کی جا رہی ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ پسنی میں سیاست کی آڑ میں پرامن ماحول کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتشار کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ محکمہ فشریز ٹرالر مافیا کی روک تھام کے بجائے اپنے کوتاہی کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

مظاہرے کے شرکا سے مولانا ذاکر الحق، انجمن تاجران کے جنرل سیکرٹری لالا مراد جان، نیشنل پارٹی کے خدا بخش سعید، پسنی سول سوسائٹی کے صدر پرویز سفر، مبارک زہرو نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج پسنی مسائل کا آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ہم علاقے کی ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد کے لیے نکلیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پسنی جیٹی کی غیر فعالیت اور ٹرالر مافیا کی یلغار کے ذریعے یہاں کے عوام کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے اور بے روزگاری کی وجہ سے باصلاحیت نوجوان منشیات کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جبکہ فنڈز ہونے کے باوجود وفاق اور صوبائی حکومت کی آپس کی چپقلش اور کمیشن کی وجہ سے جیٹی کی غیر فعالیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ علاقے میں افراتفری کا ماحول ہے اور پارٹیاں عدم برداشت کا شکار ہو چکی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست کی آڑ میں ایک دوسرے کو آپس میں دست وگریباں کی سازش ہو رہی ہے۔ کبھی سندھی ماہی گیروں کی بے دخلی کے نام پر تو کبھی فشریز اہلکاروں کی جانب سے بنگالیوں پر تشدد کرکے انارکی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ فشریز جسے غیر قانونی ٹرالر مافیا کے خلاف ایکشن لینا چاہیے لیکن وہ ٹرالر مافیا کی روک تھام میں مکمل ناکام دکھائی دیتا ہے اور اپنے کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے غریب بنگالیوں پر تشدد کرکے انھیں علاقے سے بے دخل کرنے کے درپے ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے کی معیشت کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پستی کی جانب دھکیلا دیا جا رہا ہے جس پر شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔

 
مزیدخبریں