اس ایکٹ کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں؛
چیئرمین سینیٹ کو 12 ملازم، 8 گارڈز اور وی وی آئی پی سکیورٹی حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ وہ جہاں بھی جائیں گے ان کو وفاقی یا صوبائی حکومت سکیورٹی دینے کی پابند ہو گی۔ اپنے اور اپنی فیملی کے سفر کے لئے وہ جہاز بھی طلب کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی فنانس کمیٹی جو چیئرمین سینیٹ خود بناتا ہے، جو بھی فیصلہ کرے گی انہیں وہ مراعات بھی دی جا سکتی ہیں۔
اسی ایکٹ کی دفعہ 21 کے تحت چیئرمین سینیٹ کی رہائش گاہ پر 6 مستقل سکیورٹی گارڈز تعینات ہوں گے۔ ان کے علاوہ 4 محافظ حکومت کی طرف سے دیے جائیں گے اور پولیس کی طرف سے بھی سکیورٹی مہیا کی جائے گی۔ اسی طرح سیکشن 16 کی رو سے فنانس کمیٹی انہیں 12 تک پرسنل سٹاف ممبرز مستقل بنیادوں پر یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر دے سکتی ہے۔ پھر سیکشن 20 فنانس کمیٹی کو ان مراعات کو بڑھانے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ سالانہ 8 لاکھ تک اس کی حد رکھی گئی ہے مگر کمیٹی اس کو ضرورت کے مطابق بڑھانے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال سے علاج یا وہ گھر پر سہولت چاہتے ہوں تو اس کے لئے حکومت اخراجات برداشت کرے گی۔
سفر کے لئے اگر وہ چاہیں تو حکومت کے اخراجات پر حکومتی یا پرائیویٹ جہاز بھی لے سکتے ہیں۔ غیر ملکی سفر کے دوران ان کا پروٹوکول ریاست کے ڈپٹی ہیڈ جیسا ہو گا اور وہ ایک سے چار فیملی ممبران تک ساتھ لے کر جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر سرکاری گھر میں رہیں تو ٹیلی فون اور گاڑیاں مفت ہوں گی اور اگر اپنے گھر میں رہیں گے تو ڈھائی سے تین لاکھ روپے تک کرایہ بھی ملے گا۔ اس کے علاوہ الاؤنسز میں بھی کافی اضافہ کیا گیا ہے۔
اس بارے میں پیپلز پارٹی کے حکومتی وزیر خورشید شاہ سے صحافیوں کی طرف سے سوال کیا گیا اور انہوں نے جواب میں کہا کہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر کو مراعات ملنی چاہئیں، اس میں کیا مسئلہ ہے؟ انہوں نے صحافیوں اور عوام پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کو مراعات ملیں تو اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ آپ کی وہاں تک پہنچ نہیں ہوتی۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پارلمینٹ سب سے بڑا فورم ہے، چیئرمین اور سپیکر کی مراعات پر اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے 35 سال میں آج تک ٹرانسپورٹ الاؤنس (ٹی اے) ڈیئرنیس الاؤنس (ڈی اے) اور مفت ادویات نہیں لیں۔
جہاں تک ان کے ذاتی طور پر الاؤنس نہ لینے کی بات ہے، وہ قابل ستائش ہے اور اگر سینیٹ اس وقت ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظر یہ قانون منظور نہ کرتی تو اس میں قوم کی تکلیف کی جھلک نظر آتی۔ اگر وہ قوم کے احتجاج پر اس قانون کو ختم کر دیں تو یہ اور بھی زیادہ قابل ستائش ہو گا۔ مگر خورشید شاہ کا یہ کہنا قابل افسوس ہے کہ 'دوسروں کو مراعات ملیں تو اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ آپ کی وہاں تک پہنچ نہیں ہے'۔
ان کے بقول اگر پارلیمان بڑا فورم ہے تو ان کی پہنچ تو وہاں تک بھی ہے جہاں عوام اور صحافیوں کی پہنچ نہیں کیونکہ عوام نے اپنی طاقت ان کو سونپ کا بڑے فورم میں بھیجا ہے۔ اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے چھوٹوں میں امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے اور برابری کو ترویج دیا جائے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بڑے پن کی نشانی تو یہ ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے چہ جائے کہ جس پر تنقید کریں، جس کے عمل کو ظلم کے مترادف کہیں، اسی کے نقش قدم پر چل پڑیں۔ اس کا تو مطلب ہوا کہ عدلیہ کے پاس بھی اختیار تھا تو انہوں نے اپنی تنخواہیں بڑھا لیں اور ان کو دیا ہوا اختیار بھی پارلیمان کا ہی ہے اور پارلیمان ہی ان سے یہ اختیار واپس لے سکتی ہے اور پارلیمان نے ان سے اختیار واپس لینے کے بجائے عوام کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مراعات کو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔
مزید حکمران اتحاد میں اختلاف پر بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ اگر ان کو اختلاف نہیں تو عوام کو تو ہے اور وہ اس پر احتجاج کر رہے ہیں اور یہ مت بھولیے کہ آپ کے اختلافات اتنی اہمیت نہیں رکھتے جتنے عوام کے اختلافات رکھتے ہیں کیونکہ عوام ہی اصل سرچشمہ طاقت ہیں اور وہ کسی بھی وقت آپ کو سونپے ہوئے اختیارات واپس بھی لے سکتے ہیں اور بعض دفعہ یہ اختیارات ہوتے ہوئے بھی بے فائدہ ہو جاتے ہیں جب عوام کی طاقت پیچھے نہ ہو۔ پتا نہیں آپ اقتدار مل جانے کے بعد یہ سب کچھ بھول کیوں جاتے ہیں اور پھر مکافات عمل کا شکار ہوئے رہتے ہیں۔
آج دنیا میں جو نظام حکومت میں محکموں کا ماڈل ہے اس کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کیا اور ان کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ آپؓ کے غلام نے بازار سے گھی کا کنستر اور دودھ کا مشکیزہ آپؓ کے لیے 40 درہم میں خرید لیا۔ بعد ازاں غلام نے آپؓ کو یہ بتایا کہ آپؓ کا کیا ہوا عہد پورا ہو گیا اور وہ آپؓ کے لیے بازار سے گھی اور دودھ کا کنستر خرید لایا ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فتصدق بهما، فانی اکره ان آکل اسرافا،کيف يعنينی شان الرعية اذا لم يمسسنی ما مسهم۔ (المنتظم، 4: 250)
ترجمہ: 'تم ان دونوں چیزوں کو خیرات کر دو کیونکہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اسراف کے ساتھ کھاؤں، مجھے رعایا کا حال کیسے معلوم ہو گا اگر مجھے وہ تکلیف نہ پہنچے جو تکلیف انہیں پہنچ رہی ہے'۔
حالانکہ یہ چیزیں خزانے سے خریدی بھی نہیں گئی تھیں اور جن قاضیوں کی طرف اشارہ کر کے موصوف نے فرمایا ہے اس بارے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
'قضاء (عدالتی فیصلہ) محکم فریضہ اور اتباع کی جانے والی سنت ہے۔ پس سمجھ لے کہ جب تیرے سر پر کوئی فیصلہ ڈالا جائے تو محض ایسے حق بتا دینے سے کوئی نفع نہیں جس کو نافذ العمل نہ کیا جائے'۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاضیوں کے انداز اور کردار سے متعلق فرمایا:
آس بين الناس في مجلسک وفي وجهک وعدلک حتی لا يطمع شريف في حيفک ولا ييأس ضعيف۔ (نميري، اخبار مدينة، 1: 411، رقم: 1325)
ترجمہ: 'لوگوں کے درمیان اپنے چہرے سے، اپنی نشست و برخاست سے اور اپنے فیصلے سے امید دلائے رکھو تا کہ کوئی معزز آدمی تیرے ظلم کی وجہ سے بری طمع نہ کرے اور کوئی کمزور آدمی تیرے عدل سے مایوس نہ ہو'۔
ان کا ایک اور واقعہ بہت ہی مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی چیز سے متعلق آپس میں جھگڑا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آپ اپنے اور میرے درمیان کسی کو ثالث مقرر کر لیں۔ چنانچہ دونوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنا فیصل مقرر کر لیا۔ پھر دونوں ان کے پاس چل کر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں تا کہ تم ہمارے درمیان فیصلہ کر دو۔ جب دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بچھونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے جگہ چھوڑ دی اور بولے: اے امیر المومنین! یہاں آئیے۔ حضرت عمرؓ بے شک خلیفہ وقت تھے مگر اس وقت ایک سائل کی طرح حاضر تھے۔ حضرت زیدؓ کے اس طرز عمل پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هذا أول جورک جرت فی حکمک أجلسنی وخصمی۔ (ابن جعد، المسند، 1: 260، رقم: 1728)
ترجمہ: 'یہ پہلا ظلم ہے (جو تم نے اپنے فیصلے میں ظاہر کیا ایسی صورت میں) میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا پسند کروں گا'۔
اس کے بعد آپ دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے کسی چیز کے متعلق دعویٰ ظاہر کیا، حضرت عمرؓ نے انکار کر دیا۔ قاعدہ کے مطابق ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر گواہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قسم آتی تھی لیکن حضرت زید بن ثابتؓ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمایا: امیر المومنین کو قسم کھانے سے تم معاف رکھو اور ان کے علاوہ میں کسی اور کے لئے ایسا مطالبہ کبھی نہ کرتا۔ مگر حضرت عمرؓ نے ازخود قسم کھا لی۔ معاملہ حل ہو جانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ جب تک عمرؓ زندہ ہے زیدؓ کبھی عہدہ قضاء پر فائز نہیں ہو سکتا کیونکہ عمرؓ کے نزدیک تمام مسلمانوں کی عزت و آبرو برابر ہے۔
آپ کے دور حکمرانی میں کیسے ججز تعینات ہوتے رہے ہیں اس کے بھی آپ حکمران لوگ ہی ذمہ دار ہیں۔ آپ لوگوں کے ادوار میں کس طرح اپنے سیاسی کارکنان کو ججز کی نشستوں پر تعینات کیا گیا تھا جن کو افتخار چودھری نے نکالا تھا وگرنہ آج عدلیہ کا اس سے بھی برا حشر ہوتا۔ نواز شریف کو برطرف اور نا اہل بھی انہی کے اپنے سفارش کردہ جج نے کیا تھا۔
آپ ان کے فیصلوں سے بہت متاثر ہیں تو پھر الیکشن بارے فیصلے پر بھی عمل کرتے۔ آپ نے تو ان کی عزت کا رشک کھاتے ہوئے پارلیمان کے لئے توہین عزت کا قانون بھی منظور کر لیا ہے تا کہ آپ کے خلاف کوئی بات نہ کر سکے۔ اب دیکھتے ہیں ان ہی کی طرز پر آپ کتنی عزت کماتے ہیں۔