نئے مالی سال کا بجٹ محض کھاتے پورے کرنے کی روایتی مشق ہے

محترم وزیر خزانہ نے یہ کھلا راز کریدنے کی زحمت نہیں کی کہ حکومت جون 2022 کے بعد سے اب تک کتنا قرض لے چکی ہے؟ اُنھوں نے قوم کو یہ بات بھی نہیں بتائی کہ اب تک محصولات اور قرض کے درمیان شرح 500 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

06:56 PM, 22 Jun, 2024

حذیمہ بخاری، ڈاکٹر اکرام الحق

مالی سال 2024-25 کے بجٹ کے اعلان کے بعد یہ بات ایک مرتبہ پھر کم و بیش طے ہو گئی کہ ہمارے بجٹ ساز، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی حکومت سے ہو، ناکام معاشی ماڈلز کی پیروی کرتے ہیں۔ 1962 سے لے کر اب تک قائم ہونے والی ہماری حکومتیں غریب عوام کو نظرانداز کر کے دولت مند اور طاقتور افراد کو نوازنے کی پالیسی پر گامزن رہیں۔ 2024-25 کے بجٹ سے بھی اسی پالیسی کے تسلسل کی جھلک ملتی ہے۔ یہ انسانی مساوات اور فلاح کے اُس تصور کو نظرانداز کرتا ہے جو انتہائی دولت کے ارتقاز کی مذمت کرتا ہے۔ معاشی ترقی اور شرح نمو میں اضافہ سماجی انصاف کی فراہمی اور طبقاتی انشقاق کی روک تھام کے لیے ضروری ہے؛ تاہم ہمارے بجٹ سازوں نے مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ سے مرتعش ہونے والے غیر یقینی پن کو معاشی ماڈل کے طور پر لیا ہے۔ زرعی شعبے میں محض گندم کی بہتر پیداوار کی بنا پر شرح نمو میں ترقی کا دعویٰ کرنے اور غریب کسانوں کو سرکاری طور پر مقرر قیمت نہ ملنے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ چھوٹے کاشتکار اور بے زمین مزارع حکومت کی جابرانہ معاشی پالیسیوں کا اولین شکار ہیں۔

12 جون 2024 کو بجٹ کی تقریر سننے کے بعد زیادہ تر ماہرین نے اسے حسب معمول کھاتے درست کرنے کی کارروائی قرار دیا۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار سے یہ بات بلاشبہ ثابت ہوتی ہے کہ شہباز شریف اور اُن کے معاشی جادوگروں کی قیادت میں غیر معمولی معاشی بحالی کو پیش کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جناب وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'ہم مطلوبہ معاشی بحالی کی منزل تک پہنچ چکے ہیں'، تاہم حقیقت کچھ اور ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت گذشتہ دو سال کے درمیان مہنگائی کی شرح کم ترین ہے۔ دوسری طرف غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونے والے بلا روک ٹوک اضافے نے اُن کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ انتہائی دولت اور انتہائی غربت کے فزوں تر رجحان کی وجہ سے درمیانی طبقہ تیزی سے غربت کی لکیر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس وقت غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 100 ملین سے کم نہیں۔

مالی سال 2024-25 کا بجٹ اشرافیہ کے طرز فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں معاشی ہمواری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی نظر میں 'معاشی نمو' کی تعریف میں پاکستان کے غریب عوام کا کوئی حوالہ یا حصہ نہیں۔

مالی سال 2024-25 کا بجٹ پرانے طرز عمل کا تسلسل ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ وسائل سے بڑھ کر پُرتعیش زندگی بسر کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ وہ عام آدمی پر بوجھ ڈال کر اپنے لیے ترقی یافتہ ممالک جیسی سہولیات چاہتا ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان نے بجٹ سے پہلے ہی اپنی تنخواہوں میں من پسند اضافہ کر لیا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بھاری بھرکم افسر شاہی، جو کہ ناقص گورننس، بدعنوانی اور مس مینجمنٹ کی علامت ہے، کی تنخواہوں اور سہولیات میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ حکومت نے اپنے ہاتھ روکتے ہوئے غیر پیداواری اخراجات کو کم کر کے غریب عوام کی مشکلات کم کرنے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ اس کی بجائے عوام پر مزید ٹیکسز لگا کر اشرافیہ کو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ توقع کے مطابق محصولات کے بھاری بھرکم اعداد و شمار ظاہر کرنے کے لیے 900 بلین روپے مالیت کے غیر متنازع ریفنڈز روکے گئے اور صوبوں سے 1712 بلین روپے کا اضافی کریڈٹ دکھایا گیا ہے۔ اس طرح مالیاتی خسارہ اگلے مالی سال میں جی ڈی پی کا 5.9 فیصد دکھایا گیا۔ یہ داؤ کھیلنے کے بعد محترم وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا کہ 'معاشی شواہد ہماری بہتر کارکردگی کی عکاسی کرتے ہیں'۔

محترم وزیر خزانہ نے یہ کھلا راز کریدنے کی زحمت نہیں کی کہ حکومت جون 2022 کے بعد سے اب تک کتنا قرض لے چکی ہے؟ اُنھوں نے قوم کو یہ بات بھی نہیں بتائی کہ اب تک محصولات اور قرض کے درمیان شرح 500 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ ہمیں ہر سال مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے اربوں روپے کا قرض لینا پڑتا ہے۔ ہر سال ہماری قرض واپس کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں محترم وزیر خزانہ نے قوم کے سامنے کوئی وضاحت نہیں رکھی کہ حکمران اشرافیہ عالی شان محلوں میں ملازموں کی فوج ظفر موج کے ساتھ کیوں رہتی ہے؟ یہ اشرافیہ اپنی عیش و عشرت میں ذرہ برابر کمی لانے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ ملک کے معاشی حالات انتہائی سنگینی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت بھاری آمدنیوں کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ حکومت اُن کی عیش و عشرت کی زندگی دیکھتے ہوئے بھی اُن سے ٹیکس وصول کیوں نہیں کرتی؟ یہ سوالات اب ہر شخص کے ذہن کو پریشان کرنے لگے ہیں۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ان کے موجودہ اخراجات پر نظر ثانی کر کے اُن میں اضافہ کیا گیا، حالانکہ اُن میں آسانی سے کمی کی جا سکتی تھی۔

ہر سال کا اکنامک سروے دعویٰ کرتا ہے کہ '2013 کے بعد سے پاکستان نے معاشی استحکام بحال کرنے کی طرف خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ اس وقت پاکستانی معیشت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے'۔ ہمارے ہر وزیر خزانہ کا بھی ہر بجٹ تقریر میں یہی دعویٰ ہوتا ہے، لیکن عوام سوال پوچھتے ہیں کہ یہ ترقی کی شاندار شاہراہ ہے کہاں؟ صنعت کے شعبے کی پیداوار زوال پذیر، پیداوار اور برآمدات کے تمام اہداف ناکام، تو کیا ترقی کی اس شاندار شاہراہ پر بھاری تنخواہ پانے والے افسران اور سیاست دان ہی گامزن ہیں؟ اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں؟ خود وزیر اعظم صاحب کچھ ہی ماہ میں بیرونی ممالک کے ریکارڈ دورے کر چکے ہیں اور ان پر اس غریب قوم کے اربوں روپے صرف ہو چکے ہیں۔ شاید اسے ترقی کی علامت سمجھا جائے؟ اور تو اور صدر مملکت کا آفس، جس کی فعالیت محض علامتی ہے، کے لیے بھی بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کیا قوم کے وسائل کے زیاں کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟

غیر ملکی اور داخلی قرضوں کے اعداد و شمار، اور لیے گئے نئے قرضہ جات کا حجم دیکھ کر دل کو ہول پڑتے ہیں کہ اس ستم زدہ قوم کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے۔ پہلے سے لیے گئے قرضے کی قسط کی ادائیگی اور غیر پیداواری اخراجات کے علاوہ ہمیں انسانی وسائل کی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھی رقم درکار ہے۔ ہماری معیشت کی کہانی کا خلاصہ یہی ہے؛ چنانچہ یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ بجٹ 2024-25 کھاتے پورے کرنے کی ایک اور روایتی مشق ہے۔ اس میں قومی ترقی اور خود انحصاری کی منزل حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کے اعداد و شمار عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ مختصر یہ کہ اسے اشرافیہ کی طرف سے بنایا گیا شاہانہ بجٹ کہا جا سکتا ہے جس کا معاشی بوجھ غریب عوام نے برداشت کرنا ہے۔ فی الحال معیشت پر اشرافیہ کی اجارہ داری کو توڑنا ممکن نہیں۔ ستم یہ ہے کسی سیاسی جماعت کا یہ ایجنڈا ہے بھی نہیں۔

مزیدخبریں