مسز سرینا عیسیٰ اپنی درخواست کے آغاز کے میں بیان کرتی ہیں کہ اُنکے شوہر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے اپنی نظرِ ثانی کی اپیلوں کو ٹی وی پر براہِ راست نشر کرنے کی درخواست دس رُکنی فُل کورٹ کے سامنے دائر کر رکھی ہے اور وہ (مسز سرینا عیسیٰ) یکم مارچ سے معزز جسٹس عُمر عطا بندیال کی عدالت میں ہر سماعت پر اپنے شوہر کے ہمراہ پیش ہو رہی ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ مزید لکھتی ہیں پہلی سماعت پر معزز جسٹس عُمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ ہمارے سوشل میڈیا پر اپنی ہتک اور بدنام کرنے کے دعویٰ کے حق میں مواد کہاں ہے؟ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ مِل کر سوشل میڈیا سے ایسا مواد ڈھونڈنے کے لیے ریسرچ کرکے اپنے شوہر کو ثبوت جمع کرنے میں معاونت فراہم کی جو میرے شوہر نے دو مارچ کو بینچ کے سامنے پیش کردیے۔
مسز سرینا عیسی اگلے نُکتے میں لِکھتی ہیں کہ وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ ایک ٹویٹ میں لِکھا کہ سُپریم کورٹ میں پچھلے ایک ہفتے سے ایک انڈر ٹرایل جج کے مُقدمہ کی سماعت ہورہی ہے اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا گاڈ فادر قرار دیا اور کہا کہ اگر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کو سیاست کا اتنا شوق ہے تو وہ استعفیٰ دے کر انتخابات میں حصہ لے کر اپنی مقبولیت کو جانچ لیں۔ مسز سرینا عیسیٰ بتاتی ہیں کہ فواد چوہدری نے میرے شوہر کے لیے ایک طنزیہ نظم بھی پوسٹ کی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کے اِس ٹویٹر اکاونٹ کے اڑتیس لاکھ سے زائد فالور ہیں۔
تیسرے نُکتے میں مسز سرینا عیسیٰ تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر فواد چوہدری پر سنگین الزام لگاتے ہویے کہتی ہیں فواد چوہدری کے اِن ٹویٹس سے اِس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ کمرہِ عدالت میں خُفیہ کیمرے نصب ہیں کیونکہ فواد چوہدری خُفیہ کیمروں کی ہی مدد سے ایک بھی سماعت میں کمرہِ عدالت آیے بغیر جان سکتے ہیں کہ کمرہِ عدالت میں کیا ہورہا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی دیکھیے فواد چوہدری خُفیہ طور پر سُپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کی فلمبندی کروا کر خود اور اپنی وفاقی حکومت کے لیے دیکھ رہے ہیں لیکن جب میں (مسز سرینا عیسٰی) اور میرے شوہر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ اپنی نظرِ ثانی کی اپیلوں کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی بات کرتے ہیں تو حکومت مُخالفت کرتی ہے۔
مسز سرینا عیسیٰ کی درخواست کا چوتھا نکتہ کہتا ہے کہ فواد چوہدری کو ایک وکیل کی حیثیت سے معلوم ہونا چاہیے کہ میرے شوہر سُپریم کورٹ کے جج ہیں کوئی انڈر ٹرایل قیدی نہیں ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے انڈر ٹرائل کی اصطلاح استعمال کرکے فواد چوہدری نے ایک جج اور عدالت کی توہین کی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس کو گاڈ فادر کہنا دراصل اُنکو جرایم پیشہ گروہوں اور مافیا باسز کی فہرست میں شُمار کرنا ہے جو بذاتِ خود عدالت کے عزت و وقار کی ایک سنگین اشتعال انگیز توہینِ عدالت ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست کے پانچویں نُکتے میں مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ میرے شوہر اپنی بلوچستان ہائیکورٹ کی تعیناتی سے قبل سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نہیں جانتے تھے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جب اُنکے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے لیے کال آئی تو انہوں نے راتوں و رات اپنی کامیابی کی منزلیں طے کرتی وکالت چھوڑ کر جج کا عہدہ قبول کیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پر الزامات لگاتے ہوئے کہنا ہے کہ میرے شوہر نے جج بننے کے بعد بھی اپنی بطورِ جج پیشہ وارانہ ایمانداری کی ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے اِس حکومت کی طرح کبھی اپنے کسی دوست یا رشتے دار کو تعینات کروانے کے لیے اپنے عہدے یا اثرو رسوخ کو استعمال نہیں کیا۔
چھٹے نُکتے میں مسز سرینا کا کہنا ہے کہ اگر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کی مقبولیت کو جاننے کی بات کی جائے تو فواد چوہدری کو بطورِ وکیل علم ہونا چاہیے کہ کسی بھی جج کو اپنی شہرت کا شوق نہیں ہوتا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ شہرت کے حصول کے لیے دیئے گیے فیصلوں سے انصاف اور سایلین کا نُقصان ہوتا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ فواد چوہدری توہینِ عدالت کرکے اپنی وزارت کے حلف اور وکالت کے مُقدس پیشہ سے دھوکہ دہی کے مُرتکب ہوئے ہیں کیونکہ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فواد چوہدری کا الیکشن لڑنے کا چیلنج قبول کر بھی لیں تو اُنکا عہدہِ جج اِس کی اجازت نہیں دیتا۔
اگلے ساتویں نُکتہ میں مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری سُپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کی تذلیل اور حاضر سروس جج اور عدالت کی توہین کرکے آئینِ پاکستان اور اپنی وزارت کے حلف کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہوئے ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ وزیرِ اعظم عمران خان کی سابق مُشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف فیصلہ کا حوالہ دیتی ہیں کہ کیونکہ سُپریم کورٹ کے تیس اکتوبر کے فیصلہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توہین پر ایک وزیر کے خلاف کارروائی کا حُکم ہونے کے باوجود کوئی کاروایی نہیں ہوئی تو فواد چوہدری کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توہین کے لیے فردوس عاشق اعوان کے نقشِ قدم پر چلنے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ مسز سرینا عیسیٰ آٹھویں نُکتہ میں لکھتی ہیں کہ اگر پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کے جج کی تذلیل، توہین اور بدتمیزی اِس انداز میں ایک وفاقی وزیر کررہا ہے تو اُس کے بعد ففتھ جنریشن برگیڈ کے جنگجو تو توہین کے بدترین پست درجے تک جائیں گے۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ بظاہر اُنکے اور اُنکے شوہر اور بچوں کے خلاف پچھلے دو سالوں سے جاری توہین آمیز مُہم اور دھمکیوں کے پیچھے نیت کیا ہے۔
نُکتہ نمبر نو میں مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ فواد چوہدری نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر حملوں کی حوصلہ افزایی کی ہے اور اب کئی لوگ شہہ پاکر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کو حُدیبیہ پیپز ملز فیصلہ کی آڑ میں اُنکی ذات کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے حالانکہ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ تو صرف تین رُکنی بینچ کے ایک رُکن تھے لیکن باقی دو ججوں پر کوئی تنقید نہیں کرتا۔ مزید مسز سرینا عیسیٰ مشہور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلہ کا بھی ذکر کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ فیض آبا دھرنا کیس میں بھی جسٹس مُشیر عالم کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ قائم تھا جِس کے ایک رُکن جسٹس قاضی فایز عیسیٰ بھی تھے لیکن نشانہ صرف میرے شوہر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کو بنایا گیا۔
دسویں نُکتہ میں مسز سرینا عیسیٰ حکومتی حمایتیوں کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر سابق وزیرِ اعظم نوازشریف اور سابق وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی مدد کے الزام کا جواب دیتے ہوئے لِکھتی ہیں کہ میرے شوہر کی تو اِن دونوں شخصیات سے جان پہچان تک نہیں ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ میرے شوہر کی صرف ایک دفعہ سابق وزیرِ اعظم نوازشریف سے سرسری سے مُلاقات ایوانِ صدر میں ہوئی جب وہ سُپریم کورٹ کے تمام ججز اور اُنکی بیگمات کے ساتھ چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے گیے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے شوہر کو راستے سے ہٹانے کے ایجنڈا میں سب سے پہلے سچ کا خون کیا جارہا ہے۔
گیارہویں نِکات میں جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ میرے شوہر نے ساتھی ججز کے ساتھ مِل کر ہمیشہ عوامی مُفاد اور سرکاری خزانہ کے تحفظ کے لیے نوٹس لیے ہیں جِس میں سرکاری کنونشن سنٹر کو ایک سیاسی جماعت تحریکِ انصاف کے استعمال کرنے کا نوٹس شامل ہے جو ابھی تک سماعت کے لیے مُقرر ہونا ہے لیکن میرے شوہر اور جسٹس مقبول باقر نے وزیرِ اعظم کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا جو نوٹس لیا تھا اُس میں کارروائی کرنے کی بجائے میرے شوہر کو وزیرِ اعظم کے کیس سُننے سے روک دیا گیا۔
مسز سرینا عیسیٰ کا بارہویں نُکتے میں لِکھنا ہے کہ اپنے شوہر کی غیر جانبداری اور اصول پسندی کے لیے چند مثالیں دینا چاہوں کی جِن میں میرے شوہر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے دو ہزار سولہ میں پی ٹی آئی کے رُکن جہانگیر ترین کی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی اتفاق شوگر ملز کے خلاف درخواست پر جہانگیر ترین کے حق اور نوازشریف کے خلاف فیصلہ سُنایا۔ اِسی طرح مسز سرینا عیسیٰ ایک اور کیس کا حوالہ دیتے ہویے لِکھتی ہیں کہ کویٹہ میں سیکڑوں وُکلا کو خودکُش حملہ میں شہید کرنے کی انکوائری کے لیے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کرتے ہوئے میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو رپورٹ لِکھی اُس نے اُس وقت کی ن لیگ کی حکومت کو برہم کردیا تھا۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ف کے بارے میں بھی ایک کیس کا حوالہ دیتے ہویے میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو ہزار چودہ میں بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جمیعت عُلما اسلام کو حُکم دیا کہ وہ مدارس کی تعمیر کے لیے حاصل کردہ فنڈز حکومت کو واپس جمع کروایں۔ آخری مثال میں مسز سرینا عیسیٰ لِکھتی ہیں کہ بطور چیف جسٹس بلوچستان ہایکورٹ دو ہزار بارہ میں میرے شوہر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے پیپلزپارٹی حکومت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی درخواست پر فیصلہ سُنایا۔
تیرہویں نُکتے میں مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ دراصل فواد چوہدری اور اُنکی حکومت کے دیگر لوگ نہیں چاہتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آیی حکومت کا بھی احتساب کریں۔ مسز سرینا عیسیٰ حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ اگر ایک جج مُختلف جماعتوں کے مُقدمات میں دہرا معیار یا مُختلف معیار اپنائے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جج کے عہدہ کے قابل نہیں رہتا۔
اپنی درخواست کے آخری نُکتے میں مسز سرینا عیسیٰ لِکھتی ہیں ٹویٹر ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جِس کی عالمی پزیرائی ہے اور فواد چوہدری کی ٹویٹس کو دُنیا بھر میں لوگوں نے دیکھا ہوگا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کی ٹویٹس نے دھمکانے والی تحکمانہ حکومت کے سامنے ایک طاقت اور اختیارات سے محروم سُپریم کورٹ کا تاثر دُنیا بھر کو دیا ہے اور کارروائی نہ کرنے کی صورت میں اِس کے سنجیدہ اثرات پاکستان کی معزز اعلیٰ عدالت کی ساکھ اور خُودمُختاری کو کمزور کرنے کی صورت میں نکلیں گے۔
آخر میں مسز سرینا عیسیٰ نے معزز سُپریم کورٹ سے مودبانہ استدعا کی ہے کہ فواد چوہدری کے خلاف توہینِ عدالت کا اختیار استعمال کرتے ہویے اُنکو سزا سُنا کر وزارت اور ایم این اے کے عہدہ سے نااہل قرار دیتے ہویے ٹویٹر اکاؤنٹ بھی ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا حُکم دیا جائے کیونکہ وہ اِس اکاونٹ سے توہینِ عدالت، اپنے عہدے کے ناجائز استعمال اور حلف کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہوئے ہیں۔