سیاسی مخالفت اب گالم گلوچ اور فضولیات و بکواسیات تک چلی گئی ہے اور اس کا سہرا ہمارے سچے حکمران عمران خان کے سر ہے۔ انہوں نے مخالفین کو گالیاں دینا شروع کیں تو ان کے ماننے والوں نے یہی راستہ اپنایا۔ گالیاں بھی وہی لوگ اپنے مخالفین کو دے رہے ہیں جن کا اپنا ماضی داغ دار ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید ماضی میں نواز شریف کے ساتھ تھے۔ اب کہتے ہیں کہ میرے خون میں وفاداری ہے۔ میں عمران خان کے ساتھ آیا ہوں اور اسی کے ساتھ جائوں گا۔ شیخ صاحب آپ نے جہاں بھی جانا ہے جائیں، مگر غلیظ زبان استعمال کرنے کی طرف نہ جائیں۔ پہلے بیان دیتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس 5 سیٹیں ہیں، ان کو ہم کیسے وزارت اعلیٰ کا منصب دیں اور خود ایک ہی نشست کے ساتھ وزیر داخلہ بنے ہوئے ہیں۔
شیخ رشید ٹیلی وژن پر کہتے نظر آتے ہیں کہ قوم ان کا منہ کالا کرے جب ضمیر فروش ایم این ایز حلقوں میں جائیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تب ضمیر فروش نھی تھے جب تحریک انصاف میں شامل کیا جا رہا تھا۔ اب جب وہ آپ سے الگ ہو رہے ہیں تو آپ انہیں دھوکے باز کہتے ہیں اور ہارس ٹریڈینگ کے الزامات لگاتے ہیں۔ اوپر سے مشورے بھی شیخ صاحب نے دئیے کے مال اپوزیشن کا کھائو اور کام عمران خان کا کرو۔
الفاظ سے آدمی کی پہچان ہو جاتی ہے۔ جو زندگی بھر یہی کرتا رہا ہو، وہی دوسروں کو بھی ایسا کرنے پر اکساتا ہے۔ اگر بقول شیخ رشید اور ان کے وزیراعظم کے اگر آپ کے باغی ارکان واپس آئے تو انہیں معاف کر دینگے تو یہ کون سی منطق ہے کہ آپ انہی ضمیر فروشوں کو واپس لے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان تو اسی طرح گالیاں دھمکیاں اور یوٹرن لے کر انھیں واپس بلانے کے مشورے دے رہے ہیں کہ آپ واپس آجائیں نہیں تو آپ کے بچوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی۔ آپ کا کہیں جانا مشکل ہو جائے گا۔ کوئی منہ نہیں لگائے گا۔ بچوں کے رشتے آنا بند ہوجائیں گے۔ اس پر سید خورشید شاہ نے جوابی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کے بچوں کوئی نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار عمران خان ہونگے۔
مراد سعید کی کوئی اخلاقی بات کسی بھی پاکستانی نے سنی ہو تو ہمیں آگاہ کریں۔ گالیاں اور جھوٹ جو اس کے منہ میں آتا ہے فرما دیتا ہے۔ دو سو ارب ڈالر تو آپ کو یاد ہوگا۔ جو ابھی تک پاکستان نہیں آئے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ منحرف ارکان موقع پرست ہیں۔ انہوں نے پارٹی اور پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر موصوف نے خود کتنی سیاسی جماعتوں اور پاکستان کی پیٹھ میں کتنی بار خنجر گھونپا ہے؟
موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی سفر شروع کیا۔ 2012 تک آل پاکستان مسلم لیگ کے میڈیا کوآرڈینیٹر تھے اور فوجی آمر کی گن گاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے جیالے بنے۔ وزیراعظم گیلانی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بنے۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا دفاع کرتے تھے۔ وہاں سے ٹکٹ نہ ملا تو ق لیگ میں گئے۔ ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور ملک کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر نکل پڑے۔ وہاں بھی ناکام ہوئے تو اینکر بن گئے۔ پھر آئے پی ٹی آئی میں۔ کسی نے پوچھا کے کون ہو؟ کہا سے آئے ہو؟ عمران کے خلاف تھے، پھر ان کے حق میں ہوئے اور وہی کام کیا جو مشرف اور زرداری صاحب کے لیے کرتے تھے۔ چار دفعہ تو خود وفاداری تبدیل کر چکے ہیں اور ہو سکتا ہے آگے بھی کرتے رہینگے کیوں کہ ان کی نظر میں نظریہ نہیں سیٹ اہم ہوتی ہے جو کہ ان کے سیاسی کیریئر میں نظر آتا ہے جب ان جیسے لوگ ہارس ٹریڈنگ اور موقع پرستی کا الزام لگاتے ہیں جو خود موقع پرست ہوں وہ بھی غلیظ زبان استعمال کرتے نہیں تھکتے۔
شہباز گل بھی گالیاں اور بکواس کرنے میں کافی ماہر ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک پروگرام میں رمیش کمار کو گالیاں دیں۔ رایش کمار اقلیت میں ہونے کی وجہ سے شہباز گل کے لیے کافی آسان ہدف تھا۔ شہباز گل جو کونسلر کا الیکشن لڑنے کے بھی قابل نہیں وہ بھی اب لوگوں کو سیاست سکھاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک صارف ضیا جان نے لکھا کہ رمیش کمار کو گالی دینے والا شہباز گل کا اپنا یہ کردار ہے کہ ان کو اسلام آباد کی دو یونیورسٹیز سے اس لیے نکالا گیا کہ انہوں نے کئی طالبات کو ہراساں کیا۔ اسی کے ساتھ عمران خان کے معاون خصوصی بننے کے بعد دوائیوں کے کاروبار میں اربوں روپے بنانے کے الزامات ہیں لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ گالیاں دینے کے علاوہ شہباز گل میں اور کون سی خصوصیات ہیں۔ خود عمران خان کی سابقہ بیوی ریحام خان نے بھی یہی کہا کہ خان صاحب کے زیادہ قریب وہ بندہ ہوتا ہے جو مخالفین کو زیادہ گالیاں دیتا ہے۔ عالیہ حمزہ نے ان عورتوں کے لیے کیسی زبان استعمال کی جو سندھ ہائوس میں تھیں۔