ان کا کہنا تھا کہ اگر 25 مارچ کو یہ تینوں جماعتیں اپنے وزرا سے استعفے لے کر اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ جاتی ہیں تو سپیکر بھی بے بس ہو جائیں گے۔
یہ بات مزمل سہروردی نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس تاریخ سے پہلے اپنی وزارتوں سے استعفے دے دیتے ہیں تو اس کے بعد عمران خان اور سپیکر پر اتنا دبائو ہوگا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو مزید روک نہیں سکیں گے۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹ کائونٹ ہونگے یا نہیں تو اتحادیوں کے تو ضرور گنتی میں آئیں گے۔ ان میں ایم کیو ایم، ق لیگ اور بی اے ہی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں میڈیا کو اسی طرح سے مینج کیا جیسے انہوں نے سیاست کو کیا ہے۔ ایک کنٹرولڈ میڈیا کے ساتھ انہوں نے پاکستان پر حکومت کی ہے۔ جس میں انھیں سب اچھا دکھایا جاتا رہا۔
خیال رہے کہ آصف زرداری کا ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں انہوں نے انھیں مطالبات کی منظوری کا گرین سگنل دے دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ زرداری نے خالد مقبول سے استفسار کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر کیا فیصلہ کیا؟ میں نے آپ سے کہا تھا کہ براہ راست مجھ سے اور بلاول سے رابطے میں رہیں۔ اس پر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ جی بالکل، رابطہ رہے گا۔
آصف زرداری نے خالد مقبول سے کہا کہ اسلام آباد آئیں، ملاقات کرتے ہیں، جو طے ہوگا اس پر عمل ہوگا۔ میں اور بلاول آپ سے براہ راست رابطے میں رہیں گے اور معاملات کی خود نگرانی کریں گے۔ ایم کیو ایم سربراہ نے اس دعوت پر کہا کہ وہ بدھ کو اسلام آباد پہنچیں گے۔
اس سے قبل سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آباد پہنچے جہاں انہوں نے متحدہ کی قیادت سے ملاقات کی جس میں موجودہ سیاسی صورتحال اور تحریک عدم اعتماد پر گفتگو کی گئی۔
ایم کیو ایم قیادت سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے اتحادی اب ان کے ساتھ نہیں رہے، انہیں ہمارے ساتھ ہونے کا اعلان کرنے میں ایک دو دن لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم قیادت سے ملاقات کے بعد مکمل مطمئن ہوں، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین ہے۔