” ہم نے ماہی گیری کے لیے جال بچھا رکھا تھا اور مچھلی پکڑے جانے کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔“ شکیل نے بتایا ، اس وقت ان کی کشتی بحیرہ عرب کے گہرے پانی میں خاصی دور جاچکی تھی۔ ہم نے اچانک جال میں ایک تیز حرکت محسوس کی، جیسے کوئی جال کو کھینچ رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کہ یہ ایک قوی الجثہ سبز کچھوا تھا جو ہمارے جال میں پھنسا ہوا تھا اور خود کو چھڑانے کی جدوجہد کررہا تھا۔
” آہستہ آہستہ جال کھینچ کر ہم نے بہت احتیاط سے اس دیوہیکل کچھوے کو جال سے چھڑایا اور باحفاظت طور پرسمندر میں واپس چھوڑ دیا۔ ہم کچھوے کو سمندر میں تیرتے ہوئے آگے جاتے دیکھ کر بہت خوش ہورہے تھے۔کچھ عرصہ پہلے تک دوسرے ماہی گیروں کی طرح میں بھی جال میں پھنسنے والے ان جانوروں کی پروا نہیں کرتا تھا۔ مجھے صرف اپنے مچھلیوں کے شکار کی فکرہوتی تھی۔“ شکیل نے بتایا۔
لیکن پھر 2018 میں شکیل کو ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا ، وہ کہتے ہیں کہ ” اس ورکشاپ نے میرے ذہن کو یکسر تبدیل کردیا۔“اس ورکشاپ میں شکیل اور ان کے ساتھیوں کو ماحولیاتی ماہرین نے ان نایاب سمندری انواع مثلا کچھوے، شارک اور ڈولفن وغیرہ کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی سمندرکے ماحولیاتی نظام میں ان کی اہمیت اور کردار پر روشنی ڈالی، اوریہ بھی واضح کیا کہ ہمارے غیر محتاط رویوں کے باعث ان کی آبادی گھٹتی جارہی ہے۔ ان ماہرین نے یہ بھی سکھایا کہ اگر حادثاتی طور پر ان کے جال میں یہ نایاب انواع پھنس جائیں تو کس طرح بغیر زخمی کیے احتیاط سے سمندر میں واپس چھوڑا جاسکتا ہے۔ ماہی گیری کے دوران مچھلیوں کے علاوہ جال میں پھنسنے والی ان انواع کو عموما بائی کیچ (Bycatch) کہا جاتا ہے۔
شکیل پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک ساحلی بستی ابراہیم حیدری کے رہائشی ہیں۔ وہ ان تقریبا 700 افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سسٹین ایبل فشریز انٹرپرینیور شپ پروجیکٹ کے تحت ٹریننگ حاصل کی ہے جو ابراہیم حیدری اور قریبی ریڑھی گاﺅں میں 2016 سے کام کررہا ہے۔ اس منصوبے کے لیے مالی تعاون اینگرو فاﺅنڈیشن کا ہے۔ اس منصوبے کے مقاصد میں بائی کیچ کو کم اور روزگار کے اضافی مواقع پیدا کرنا شامل ہے ، اس کے علاوہ اس منصوبے کا اہم مقصد پاکستا ن کے ساحل اور سمندر میں پائیدار ماہی گیری کا فروغ بھی ہے۔
پاکستان میں خطرناک جال سے اندھادھند ماہی گیری
2012سے قبل پاکستان کے سمندر میں 28,000 کچھوے اور 12,000 ڈولفن ہرسال ماہی گیری کے مختلف جالوں میں پھنس جاتی تھیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان نے تھرڈپول سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پکڑی جانے والی تمام ڈولفن دم گھٹنے سے مرجاتی تھیں۔ معظم خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تقریبا 21,000 کشتیاں پاکستان کے ساحلوں پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہوتی جن میں سے 13,00 سندھ اور 8,000 بلوچستان میں کام کرتی ہیں۔ان کشتیوں میں زیادہ تر گل نیٹ( جال کی ایک قسم) استعمال ہوتا ہے حتی کہ بڑے ٹرالرز میں بھی جو سمندری حیات کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے ۔ گل نیٹ سمندر میں کسی طویل دیوار کی طرح نصب کردیا جاتا ہے جو نہ صرف چھوٹی بڑی مچھلیوں کو سمیٹ کر ان کی نسل کشی کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس میں دیگر بڑی انواع بھی شکار ہوجاتی ہیں۔
گل نیٹ پاکستانی سمندری وسائل اور ماحولیاتی نظام کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ بہت چھوٹے چھوٹے سوراخوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اپنی طوالت کے باعث سمندر میں ایک ناقابل تسخیر دیوار کی طرح نصب کیا جاتا جس میں عموما مطلوبہ چھوٹی بڑی مچھلیوں کے ساتھ نایاب سمندری انواع بھی شکار ہوجاتی ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنس سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر شعیب کیانی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے قوانین اورایک بین الاقوامی تنظیم ( پاکستان بھی جس کا رکن ہے)انڈین اوشین ٹیونا کمیشن کی مقرر کردہ تعریف کے مطابق گل نیٹ کو ڈھائی کلو میٹر سے زیادہ طویل نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمارے ماہی گیروں کے جال 15 اور کہیں کہیں 20 کلومیٹرسے بھی طویل ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے (جس میں 2012 اور 2015 کے درمیان ملک کی گل نیٹ ماہی گیری میں بائی کیچ کا جائزہ لیا گیا تھا) مزید کہا کہ اس حوالے سے ہمیں قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا- رپورٹ کے مطابق پاکستانی سمندر میں مچھلیوں کی تعداد 40 سے70 فیصد کم ہوچکی ہے۔
اس حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے پاکستان کے ساحلوں پر ایک ‘Crew-based observer programme’ کا آغاز کیا۔ جس میں سو سے زیادہ کشتی کے کپتانوں کوخطرے سے دوچار سمندری انواع کو بحفاظت سمندر میں چھوڑنے ،ماہی گیروں کی حوصلہ افزائی کے لیے عوامی پزیرائی اور ایورڈ سے نوازا گیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ پچھلے گیارہ سالوں میں 113 وہیل شارک ،42 سن فش، 7 ´ ڈولفن ، 5 وہیل ،7 شارک ، 96 سمندری چمگادڑیں 96 mobulids (manta and devil rays)) ، 21 بڑے گھونگھے اور ہزاروں سمندری کچھوے ماہی گیروں کے جالوں سے سمندر میں باحفاظت چھوڑے گئے۔
پائیدار ماہی گیری طریقوں کی عوامی پزیرائی
سمندر میں چھوڑنا اور ماہی گیروں میں آگاہی کا فروغ اگرچہ اہم اقدامات ہیں لیکن خطرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ کافی نہیں ہیں۔ اسی لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے ماہی گیری کی تکنیک میں تبدیلی اور اختراع کا فیصلہ کیا۔لوک دانش اور سائنسی معلومات کو اکھٹا کرکے ہم نے 2015 میں گل نیٹ کو سمندر کی سطح کے 2 میٹرنیچے لگانے پر کام شروع کیا، اسے سب سرفیس گل نیٹ کا نام دیا گیا ۔ اس کے نتائج بہت شان دار نکلے اور وہیل، ڈولفن اور سنگ ماہی کا شکار یا اموات % 98 تک ختم ہوگئیں۔
2016 سے 2019 کے درمیان ٹیونا مچھلی کا شکار کرنے والی تمام 700 کشتیاں یہی سطح سے نیچے لگانے والا جال استعمال کرنے لگیں۔ یہ جال عمان، ایران کے مچھیرے بھی استعمال کرتے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے کمیونٹی ڈیولپمنٹ آفیسر ندیم شیخ کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے2019 میں مزید اختراع کرتے ہوئے لونگ لائن جال متعارف کروایا۔ انہوں نے بتایا کہ کسی لمبے چوڑے جال کے بجائے یہ ایک واحد طویل لائن ہوتی ہے جس کے چاروں جانب 4,000 سے زیادہ ہک لگے ہوتے ہیں جن میں چارا لگایا جاتا ہے۔ روایتی طور پر مچھیرے جولونگ لائن استعمال کیا کرتے تھے جس میں جے ساخت کے ہک ہوتے جن میں دیگر سمندری انواع خصوصاکچھووں کے شکار ہونے کا امکان زیادہ تھا۔ کیونکہ یہ ہک سطح سمندر کے قریب تیر رہے ہوتے تھے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے ان جے ساخت ہک کے ساتھ دائرہ شکل کے ہک بھی متعار ف کروائے اور ماہی گیروں کو اس پرتیار کیا کہ وہ سطح سمندر سے 70 میٹر نیچے ہک لگائیں۔اس گہرائی میں کچھووں، شارک اور وہیل کا ان ہکوں میں پھنسنا تقریبا ناممکن تھا۔
ندیم شیخ کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق2018 سے 2022 تک اس نئے طریقہ کار یعنی لونگ لائن میں صرف 6 کچھوے پھنسے ہیں جنہیں تربیت یافتہ ماہی گیروں نے بحفاظت سمندر میں چھوڑ دیا۔ جبکہ وہیل، شارک یا ڈولفن شکار ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کیانی کے مطابق لونگ لائن اور سب سرفیس گل نیٹ بلاشبہ پائیدار ماہی گیری اور سمندری وسائل کے تحفظ کے لیے بہترین ہیں کیونکہ ان میں نایاب سمندری انواع کا تحفظ ہوتا ہے لیکن یہ کافی نہیں، ماہی گیروں میں شعور و آگہی کے اضافے کے ساتھ حکومت کو بھی قوانین پر عمل درآمد کروانا چاہیے۔
ماہی گیری کے نئے طریقہ کار کے پاکستانی مچھیروں پر اثرات
پاکستان کی جی ڈی پی میں ماہی گیری کی صنعت کا حصہ% 1 سے بھی کم ہے اوریہ 1.8ملین لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ندیم شیخ ماہی گیروں کی ہی نہایت پسماندہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غربت اور بنیادی سہولیات تک عدم رسائی اب بھی عام بات ہیں۔ ان کا کہنا ہے ماہی گیروں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافے کے لیے ماہی گیری میں لونگ لائن گیئر کا استعمال ایک خوش آئند بات ہے۔
محمد علی ابراہیم حیدری کے ان تین خوش نصیب ماہی گیروں میں سے ایک ہیں جن کا انتخاب ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے اپنے پروجیکٹ Sustainable Fisheries Entrepreneurship Project کے لیے کیا تھا، اس منصوبے کے تحت تین کشتیوں پر لونگ لائن نصب کی گئی تھی۔ محمد علی نے تھرڈ پول کو بتایا کہ لونگ لائن کے استعمال نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔ اب اس کی آمدنی پہلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ وہ پہلے سالانہ 600,000 پاکستانی روپے ( 2,300 امریکی ڈالرز) کماتے تھے لیکن اب وہ ایک سال میں 2,000,000 یعنی 7,600 ڈالرز تک کما لیتے ہیں۔لونگ لائن ساحلوں کے بجائے گہرے سمندر میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں بڑے سائز کی مچھلی آسانی سے مل جاتی ہے جس کی فروخت سے اچھے پیسے ملتے ہیں۔
ندیم شیخ نے مزید بتایا کہ ایک کشتی پر لونگ لائن آلات نصب کرنے پر تقریبا 900,000 پاکستانی روپے یعنی 3,400 امریکی ڈالرز لاگت آتی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف اس لاگت کا نصف حصہ فراہم کرتا ہے۔ حال ہی میں مزید15کشتیوں کو لونگ لائن گیئر لگایا گیا ہے۔ اس طریقہ ءکار کی کامیابی دیکھتے ہوئے دسیوں ماہی گیروں نے اپنے طور پر کشتیوں میں لونگ لائن گیئر نصب کیا ہے اور کراچی کی ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ میں65 کشتیاں لونگ لائن کے ذریعے ماہی گیری کررہی ہیں۔ جس سے تقریبا980 ماہی گیروں کی زندگیاں بدل رہی ہیں جو دیگر مچھیروں کی نسبت تین گنا زیادہ آمدنی حاصل کررہے ہیں۔
اب تک ماہی گیر صنعت کا صرف %4 ہی حصہ ایسا ہے جنہوں نے موثر اور پائیدار ماہی گیری کے طریقہ کار کو اپنایا ہے۔ ندیم کا کہنا ہے کہ اور یہ تقریبا ناممکن ہے کہ کشتیوں کے مکمل بیڑے کو لونگ لائن یا سب سرفیس گل نیٹ پر تبدیل کیا جائے کیونکہ کشتیوں کا ساخت، ان پر نصب آلات اور یہ کہ وہ کون سی مچھلی پکڑ رہی ہیں ، کون سے پانی میں ماہی گیری کررہی ہیں یہ سب مختلف ہوتا ہے۔
” لیکن ہم کوشش کررہے ہیں اور اس مقصد کے لیے حکومت کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ کم کررہے ہیں اور ساتھ ہی ماہی گیروں میں سمندری وسائل کی حفاظت کے لیے ان میں احساس اورآگہی اور شعور میں اضافے کے لیے کام کررہے ہیں۔ روایتی ماہی گیری کے آلات میں تبدیلی یا اختراع کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں جس کے لیے ہم تجارتی شعبے کو ماحولیاتی تحفظ کی سرگرمیوں میں شامل کررہے ہیں۔”
سمندری حیات کے حوالے سے سائنس داں کیانی پرامید ہیں کہ ” ماہی گیروں کے لیے مناسب ماہی گیری کے سامان، تعلیم اور صلاحیت سازی کے پروگراموں کی فراہمی کے ساتھ ہم سمندری انواع کی کم ہوتی آبادی کو بھی بحال کرسکتے ہیں۔ جن میں سے کچھ معدومیت کے دہانے پر ہیں۔