نظام کو جوں کا توں چلانے کی کوشش کرنا عقلمندی کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ جب ریاست نئے بندوبست سے پہلوتہی برتتی ہے، خرابیوں پر لیپا پوتی کرتی ہے تو اس سے افراتفری اور تشدد جنم لیتا ہے۔ ریاستی باشندے ریاست پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جس کے نتائج دہشت گردی کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں اور دشمن قوتوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ریاست کے اندر سے تعاون میسر آتا ہے۔
پھر وفاق کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسی تحریکیں ابھرتی ہیں جنہیں ریاست غداری کا لیبل لگا کر بزور قوت دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن ناکام رہتی ہیں۔ موجودہ حالات کا اگر دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو ہم مندرجہ بالا صورتحال میں پھنس چکے ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے نرگسی نعرے اور خطاب کام نہیں آتے ہیں۔ نرگسی بیانیہ بھی ایسی صورتحال میں ناکام ہو جاتا ہے۔
ایسی صورتحال سے نکلنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جو زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کی جائے۔ جس میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔ ملکی وسائل اور مسائل کو دیکھتے ہوئے انتظامی یونٹس کی تشکیل کی جائے۔ وفاق پاکستان کو ڈویژن کی سطح پر چھوٹے چھوٹے صوبائی یونٹوں میں تقسیم کر دیا جائے تو پہلے مرحلے میں مسائل کا بوجھ انتہائی کم ہوجائے گا۔ قومی اسمبلی کو چند ممبران تک محدود رکھنے کی بجائے توسیع دے کر آٹھ سو سے زیادہ ممبران کی اسمبلی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی طور پر عوامی اسمبلی بن پائے اور عوام کی اکثریت کو حق نمائندگی ملے اور قانون سازی کے عمل میں عوام کی اکثریت شامل ہو۔ چند لوگ کروڑوں عوام کے مقدر کا فیصلہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔
انتظامی یونٹس کی تشکیل سے سیاسی اجارہ داری ختم ہوگی اور زیادہ سے زیادہ لوگ کاروبار مملکت چلانے میں ممدومعاون ہوں گے۔ ریاست اور حکمرانوں کو مطالبات دبانے کی بجائے مطالبات کو سننے کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کا پائیدار حل نکل سکے اور صوبوں کی مانگ کرنے والی تحریکیں حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔
حکومت کو اس وقت استحکام کے لئے عوامی حمایت کی اشد ضرورت بھی ہے۔ وزیراعظم عمران صوبوں کے قیام کو انتخابی نعرے کے طور استعمال بھی کرتے ہیں۔ سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے وزیراعظم نے تحریری معاہدہ بھی کیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حمایت کی جائے، حکومت بنی تو سرائیکی صوبہ بنایا جائے گا۔ وزیراعظم عمران معاہدے کی پاسداری کریں اور نہ صرف سرائیکی صوبہ بلکہ صوبہ ہزارہ اور صوبہ پوٹھوہار کے قیام کے لئے بھی پیش رفت کی جائے۔
نئے صوبوں کے مطالبات آئینی ہیں۔ نئے بندوست کیے جاتے ہیں۔ اہم ترین عنصر یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے عوام نئے صوبوں کے مطالبات کر رہے ہیں اور روز بروز مطالبات میں شدت آ رہی ہے۔ سرائیکی عوام میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ وہ تخت لاہور کے قیدی ہیں۔ شمالی پنجاب کے علاقے خطہ پوٹھوہار کے عوام بھی صوبہ پوٹھوہار کی مانگ کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ہزارہ بیلٹ کے عوام صوبہ ہزارہ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ سندھ میں جنوبی سندھ صوبہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اس صورتحال اور عوامی جذبات کو ریاست کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ اوپری سطروں میں کہا گیا ہے کہ حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ریاست کو نئے صوبے بنانا ہوں گے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ مسائل کے گرداب سے نکلنے کا آسان اور سہل راستہ ہے۔ قرض پر ملک نہیں چلتے اور نہ ملکی اداروں کی نجکاری سے معاشی حالات میں بہتری آتی ہے۔ نئے صوبے بنانے سے مسائل کا بوجھ تقسیم ہوگا۔ ملکی معاشی صورتحال بہتر ہوگی۔