سول سوسائٹی نیٹ ورک کی آمنہ ملک نے فوجداری پروسیجر کوڈ کی دفعات 22 اے اور 22 بی کے تحت مقدمہ کے اندراج کی درخواست جمع کروائی تھی۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ عورت مارچ کے شرکا کے خلاف اندراج مقدمہ کے لیے تھانہ سول لائنز میں درخواست جمع کروائی گئی تاہم متعلقہ حکام نے مقدمہ کے اندراج میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
درخواست گزار نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی وساطت سے یہ موقف اختیار کیا کہ آٹھ مارچ کو خواتین کی جانب سے عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکا نے اخلاقیات سے گرے ہوئے نعرے بلند کیے اور بینرز آویزاں کیے۔
وکیل نے دعویٰ کیا کہ عورت مارچ اسلامی اقدار کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کے بھی منافی ہے چنانچہ عدالت سے استدعا ہے کہ وہ عورت مارچ میں حصہ لینے والی خواتین اور اس کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کرے۔
رواں ماہ کے اوائل میں چھ مئی کو عدالت نے سی سی پی او لاہور اور پولیس کے کمپلینٹ سیل کو درخواست کے حوالے سے 14 مئی کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے۔
واضح رہے کہ ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ جج عامر حبیب کی جانب سے درخواست کی سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ کمپلینٹ آفیسر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس فیصل مختار نے پولیس کی طرف سے جواب جمع کروا دیا ہے۔
پولیس حکام نے موقف اختیار کیا ہے کہ خواتین کے عالمی دن پر گورنر ہائوس کے سامنے خواتین نے ایک ریلی کا انعقاد کیا جس میں کوئی قانونی یا غیر اخلاقی کام نہیں ہوا اور ایک پرامن ریلی نکالنے پر مقدمہ درج کرنا ممکن نہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔