ذبیح اللہ منصوری کون ہیں؟
ذبیح الله منصوری صاحب 1899 میں ایران کے شہر سنندج میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم آلیانس سکول میں حاصل کی جو ایران میں کام کرنے والے فرانسیسی چلا رہے تھے۔ وہیں سے انہوں نے فرانسیسی زبان سیکھی۔ بعد میں ان کے والد کا تبادلہ تہران ہو گیا اور وہ وہاں چلے گئے۔ جوان ہوتے ہی باپ کے سائے سے محروم ہو گئے اور خاندان کی کفالت کا بوجھ ان کے کندھے پر آ گیا جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہو گئے۔ 1922 میں مختلف اخبارات اور جرائد میں بطور مترجم ملازمت شروع کی۔ انہوں نے 1986 میں تہران میں وفات پائی۔ ان کی روزی کا ذریعہ ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام و علما پسند کتابیں لکھنا بھی تھا۔ پاکستان میں اس کی مثال جناب نسیم حجازی وغیرہ ہیں۔ ایسے لوگ علمی اعتبار سے پختہ نہ تھے اور ان کی مالی ضروریات اس بات کا تقاضا کرتی تھیں کہ ایسی کتابیں لکھی جائیں جنہیں عوام ثواب کمانے کی نیت سے مطمئن ہو کر پڑھیں اور خرید کر بانٹیں۔ موجودہ زمانے میں پاکستان میں اوریا مقبول جان ہوں یا ایران میں حسن عباسی، حسین شریعت مداری یا حسن رحیم پور ازغدی وغیرہ، ایسے ہی نیم خواندہ مگر ثواب دار لکھاریوں کی جدید کھیپ ہیں۔ ان لوگوں کے لئے اسلام کو خطرے میں دکھانا اور پھر اس کو بچانا روزی کمانے کا ذریعہ ہے۔ بدقسمتی سے ایسے لوگ ہٹلر قسم کے ”سادہ زندگی گزارنے والے“ نیم خواندہ رہبروں کے لئے گوئبلز کی جگہ بھی پُر کر رہے ہیں۔
عبد الکریم مشتاق بھی اسی قسم کی چیز تھے۔ اردو کتاب کے شروع میں لکھا ہے:
”عصر حاضر میں تہذیب کے مسئلہ کی اہمیت نے عالم اسلام کو ایک نازک بلکہ دشوار منزل پر لا کھڑا کیا ہے ۔۔۔ زیر نظر کتاب ہماری جدوجہد کی ایک اہم کڑی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ممتاز و منفرد ہے کہ اس سے قبل اردو زبان میں ایسی کاوش منظر عام پر نہیں آ سکی ہے۔ اس کتاب کا اصل مسودہ فرانسیسی زبان میں ہے۔ اسے پچیس دانشوروں کی ایک جماعت نے مرتب کیا ہے۔“
یورپی نام مصنف کے اپنے ذہن کی اختراع ہیں
اگلے صفحات میں ”مقدمہ فارسی مترجم“ کے ذیل میں ان مفروضہ دانشوروں کے اسمائے گرامی بھی لکھے گئے ہیں جنہوں نے مرکز مطالعات اسلامی سٹراس برگ میں ایک تحقیقی پروگرام میں حصہ لیا اور اس کتاب کو مرتب کیا۔ ان میں سے اکثر نام یورپی ہیں مگر دو نام مسلمان ہیں جن میں سے مسٹر موسیٰ صدر اصل میں لبنانی شیعہ عالم آیت الله موسیٰ صدر ہیں اور دوسرے مسٹر حسین نصر اصل میں معروف مصنف ڈاکٹر حسین نصر ہیں۔ ان دو حضرات نے کبھی اس کتاب کو لکھنے میں حصہ ڈالنے کا اظہار نہیں کیا۔ باقی 23 نام ذبیح الله منصوری صاحب کی اپنی اختراع ہیں اور ان ”سائنس دانوں“ کا ان یونیورسٹیوں سے کوئی تعلق نہیں رہا جن میں سے اکثر وجود ہی نہیں رکھتیں۔
اس قسم کی کوئی کتاب فرانسیسی یا کسی اور یورپی زبان میں لکھی بھی نہیں گئی۔ مبینہ فرانسیسی کتاب کا کوئی نسخہ ایران کی کسی لائبریری میں بھی موجود نہیں ہے۔ فرانس کے شہر سٹراس برگ میں اس قسم کا تحقیقی مرکز بھی کبھی نہیں تھا۔ کتاب میں طفلانہ باتیں لکھ کر امام صادقؑ سے منسوب کی گئی ہیں اور حوالے فراہم کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر امام جعفر صادقؑ کے سائنسی کارناموں پر کسی قسم کی تحقیق ممکن ہوتی تو اس کام کے لئے ایک سائنس کی تاریخ کے موضوع پر تحقیق کرنے والے کسی یونیورسٹی کے پروفیسر کو محض ایک سال درکار ہو گا۔ پچیس سائنس دانوں کی ٹیم بنا کر کئی ملین ڈالرز خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس موضوع پر آج تک صحافی قسم کے لوگوں کے علاوہ کسی نے قلم نہیں اٹھایا ہے۔
یونانی سائنس کی غلطیاں بھی امام صادقؑ سے منسوب کی گئیں
جہاں تک کتاب کے اندر لکھی گئی باتوں کا تعلق ہے تو ان میں سے اکثر غلط ہیں۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ امام صادقؑ (متوفی765) بطلیموس کی فلکیات اور جغرافیہ کے علاوہ اقلیدس کا ہندسہ اور یونانی فلسفہ پڑھاتے تھے۔ مؤلف صاحب نے اس دعوے کا کوئی حوالہ فراہم کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ چونکہ امام صادقؑ کے زمانے میں ان کتابوں کا ترجمہ نہیں ہوا تھا لہٰذا منصوری صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ علوم انہوں نے اپنے والد امام باقرؑ سے سیکھے۔ البتہ منصوری صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ یونانی علوم نہایت ناقص تھے اور یونانی علما کی اہمیت محض اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اہم سوالات اٹھائے اور جہالت کے زمانے میں ان کے جواب ڈھونڈنے کی روایت ڈالی۔ مصر سے ملنے والی یونانی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ بنی امیہ کے دور میں شروع ہو چکا تھا کیوں کہ فولاد بنانے، سونے اور چاندی کی کثافت ماپنے، نقشے تیار کرنے، بیت المال کا حساب کرنے اور مجنیق وغیرہ بنانے کے لئے ان کی ضرورت تھی۔ عباسی خلیفہ مامون نے دار الترجمہ قائم کر کے اس کام میں تیزی پیدا کی اور رومی سلطنت میں وفود بھیج کر یونانی کتابیں منگوائیں۔ اگلی صدیوں میں جب مسلمان سائنس دانوں نے ان پر مزید کام کیا تو انہوں نے امام صادقؑ کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان علوم کو یونانیوں سے ہی منسوب کیا۔ معروف شیعہ عالم خواجہ نصیر الدین طوسی (متوفی 1274) نے بھی اپنی کتاب ”التذکرہ فی علم الہیہ“ میں اپنے سائنسی کام کی بنیاد بطلیموس پر رکھی۔
منصوری صاحب کے بقول بطلیموس (متوفی 170) نے اپنی کتاب ”مجسطی“ میں زمین کے گول ہونے کا تصور پیش کیا تھا، جب کہ یہ تصور ارشمیدس (متوفی 212 قبل مسیح) اور ارسطرخس (متوفی 230 قبل مسیح) اس سے پہلے بیان کر چکے تھے۔ یہ بات یونانیوں کے عام مشاہدے کے مطابق تھی کہ جب مصر سے کشتیاں یونان جاتیں تو افق پر ڈوبتے ہوئے غائب ہو جاتی تھیں، اور واپس آتے ہوئے افق سے یکدم نمودار ہوتی تھیں جو سمندر کی سطح کے کروی ہونے کی دلیل تھی۔ اس بات کو مصر کے مختلف مقامات پر ایک وقت پر ایک چیز کے سائے کے مختلف زاویے بنانے سے بھی ثابت کیا گیا تھا اور اس تجربے سے یونانی سائنس دانوں نے زمین کے قطر کو بھی ماپ لیا تھا۔ منصوری صاحب اس نظریے کو امام صادقؑ سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کے مطابق امام صادقؑ نے یہ بات مجسطی کا عربی ترجمہ ہونے سے پہلے عربوں کو بتائی۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں انہوں نے کوئی روایت پیش نہیں کی البتہ اصول کافی میں زمین کے بارے میں امام صادقؑ سے جو روایت نقل کی گئی ہے وہ یہ ہے:
”ابان بن تغلبؒ نے امام صادقؑ سے پوچھا کہ زمین کس چیز پر رکھی ہے؟ امامؑ نے فرمایا مچھلی پر، پوچھا مچھلی کس پر ہے؟ فرمایا پانی پر، پوچھا پانی کس پر ہے، فرمایا ایک چٹان پر، پوچھا چٹان کس پر ہے، فرمایا گائے کے سینگ پر، پوچھا گائے کس پر ہے، فرمایا کیچڑ پر، پوچھا کیچڑ کس پر ہے، فرمایا افسوس! اس مقام سے آگے علماء کی عقل حیرت میں پڑ جاتی ہے۔“ (محمد بن یعقوب كلینى، الكافی، ج 15، ص 221، دار الحدیث قم، چاپ اول، 1429 ہجری)
دینی کتب سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ اپنے زمانے کی سائنس سے نہ ٹکرایا جائے
روایات کی کتب میں اس قسم کی بے شمار روایات موجود ہیں جن کا مجسطی میں بیان کیے گئے نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مجسطی میں بہت سی باتیں غلط بھی ہیں اور مجسطی کو آئمہ دین سے نسبت دینے میں ان غلطیوں کو بھی ان کے سر ڈالنے کا خطرہ موجود ہے کہ جس کا احساس منصوری صاحب کو نہ ہو سکا۔ اس کی ایک مثال سات آسمانوں کے نظریے کی ہے۔ بطلیموس کے زمانے میں آسمان کی طرف دیکھنے کے لئے دوربین ایجاد نہیں ہوئی تھی اور آسمان کو دیکھنے کے لئے دوربین کا استعمال سب سے پہلے گلیلیو (متوفی 1642) نے کیا۔ بطلیموس کے زمانے تک آنکھ کے مشاہدات سے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ سورج، چاند اور آنکھ سے دکھائی دینے والے پانچ سیارے ہر شب الگ مقام سے طلوع ہوتے ہیں۔ بطلیموس نے پانچ سیاروں اور سورج اور چاند کے لئے سات آسمان فرض کیے اور کہا کہ یہ زمین کے گرد کروں کی طرح ہیں کہ جن کا مرکز زمین ہے۔ باقی ستارے جو ہر رات اسی پرانے طے شدہ مقام پر ہی طلوع ہوتے تھے ان میں سے کچھ کے نام تو رکھے گئے مگر ان کو پہلے آسمان کی زینت اور خوبصورتی کے لئے نصب کیے گئے چھوٹے چھوٹے چراغوں کے علاوہ کچھ نہ سمجھا گیا جو اپنے طے شدہ راستوں پر تیر رہے تھے۔ اب سائنس ان باتوں کو غلط ثابت کر چکی ہے۔ اب ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ زمین آسمان سے الگ نہیں ہے بلکہ اس کا حصہ ہے۔ زمین اتنی چھوٹی ہے کہ اس کو آسمان سے وہی نسبت ہے جو ذرے کو صحرا سے ہوتی ہے۔ ستارے بہت دور ہیں اور وہ ہر شب مشرق سے طلوع ہو کر مغرب کی طرف آہستہ سے تیرتے ہوئے اس لئے دکھائی دیتے ہیں کہ زمین گھوم رہی ہے۔ اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اگر یہ باتیں اس زمانے میں کوئی کرتا تو اس کو دیوانہ قرار دیا جاتا۔ ممکن ہے کہ اسے مرتد قرار دے کر سر تن سے جدا کر دیا جاتا۔ انہی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کوئی دینی رہنما کبھی بھی اپنے مخاطب کی ذہنی سطح سے اوپر کی بات نہیں بتا سکا اور دینی کتب سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ اپنے زمانے کی سائنس سے نہ ٹکرایا جائے، جیسا کہ اوپر دی گئی روایت میں امام صادقؑ نے اپنے ماحول کی عرب دانش کے مطابق ہی جواب دیا۔
ملا صدرا اہلِ تشیع کے غزالی
منصوری صاحب نے آگے چل کر امام صادقؑ کے سر آکسیجن کی دریافت کا سہرا بھی باندھ دیا ہے اور یہ بھی لکھ ڈالا ہے کہ خالص آکسیجن گوشت کو جلا دیتی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے امام صادقؑ کو عناصر اربعہ کے تصور کو غلط ثابت کرنے والی شخصیت بھی قرار دیا جب کہ یہ تصور عباسی دور کے سبھی مسلمان سائنس دانوں میں عام رہا ہے۔ آگے چل کر منصوری صاحب امام صادقؑ کو تصوف کا بانی قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک کھلا تضاد ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں سائنس کا زوال تصوف کے عام ہونے سے ہوا۔ انسانی سرمایہ کشف و الہام میں صرف ہونے لگا تو سائنس میں کام کرنے والی افرادی قوت میں شدید کمی واقع ہوئی۔ سب سے پہلے یہ انحراف امام غزالی (متوفی 1111) کی ”تہافۃ الفلاسفہ“ کے نتیجے میں اہلسنت میں آیا اور بعد میں ملا صدرا (متوفی 1635) نے شیعوں میں سائنس کی جو رمق باقی تھی، اسے بھی ختم کر دیا۔ ان دو حضرات نے عقلی علوم میں دلچسپی رکھنے والی مسلمان اقلیت کو شبہ علم (pseudo-science) کی کھائی میں دھکا دے کر دنیاوی علوم سے دور کر دیا۔
جابر ابن حیان کی غلطیوں کو امام صادقؑ سے منسوب نہ کریں
آگے چل کر جابر ابن حیان (متوفی 803) کو جدید کیمسٹری کا بانی قرار دیا گیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جابر نے کیمسٹری کا کوئی قانون کشف نہیں کیا ہے۔ جابر نے اپنے زمانے میں میسر دھات سازی کے یونانی علوم کی بنیاد پر ہی کام کیا۔ اس نے جانوروں کے گوبر سے نا خالص نائٹرک ایسڈ بنایا جو دھاتوں کی سطح سے زنگ اتارنے کے کام آتا تھا۔ یہ کام بلا شبہ اس دور کے حساب سے بڑا کارنامہ ہے، لیکن اس کو امام صادقؑ سے نسبت دینے سے جابر کی غلطیاں بھی ان سے منسوب ہو جائیں گی۔ یہاں ایک اور نکتے پر بھی توجہ دینا ضروری ہے: دین اور سائنس میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سائنس میں نئے لوگ پرانوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ مثلاً آج کل میٹرک کا بچہ بھی جابر بن حیان سے کہیں بہتر کیمسٹری کو جانتا ہے۔ لیکن دین کے معاملے میں پرانے بزرگان کا مقام اپنے بعد میں آنے والوں سے ہمیشہ بلند رہتا ہے۔ مثلاً آج کا کوئی محدث امام بخاریؒ یا شیخ کلینیؒ سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ دین اور سائنس میں جوڑ پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے دینی بزرگان اور کتب کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دین اور سائنس کبھی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے۔
منصوری صاحب کی کتاب چار سو ستر صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر صفحے پر ایک سے بڑھ کر ایک دعویٰ ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے عجیب و غریب دلائل کا سہارا لیا گیا ہے۔ تھوڑے لکھے کو کافی سمجھیں اور باقی کتاب ڈھونڈ کر خود پڑھیں۔