کامریڈ سلمان درانی کو فیض، لاہور اور جاوید کا بولا تو وہ ہم سفر بننے کو تیار ہو گیا۔ یہ میرا اس برس کا شہر لاہور میں چوتھا پڑاؤ تھا۔ داتا کی نگری میں بار بار قدم رکھنے کا موقع دے کر قسمت آپ پر یوں بھی مہربان ہو جایا کرتی ہے۔ بندے نے لاہور جانا ہو تو ٹرین سے زیادہ دلچسپ سفر میرے لئے نزدیک اور کوئی نہیں۔ رات کے وقت کا ٹرین میں سفر پہلے کبھی نہ کیا۔ سوچا اس بار یہ تجربہ کیا جائے۔ درانی اور میں نے یوں تو وعدہ کیا تھا کہ رات گئے تک گفتگو اور بحث و مباحثہ جاری رہے گا مگر بہت ضرور بھی مارا تو تین بجے کے قریب آنکھوں نے معذرت کر لی اور خاکسار اس نتیجے پر پہنچا کہ نیند سے جنگ نہیں لڑنی چاہیے اور رات کا سفر مقصود ہو تو برتھ کروا لی جائے۔
https://www.youtube.com/watch?v=SBbewZHZAuU
پانچ بجے کے قریب لاہور جنکشن پر قدم اتارے۔ صبح کا اجالا دیکھا تو پیٹ خالی خالی محسوس ہوا۔ نگاہیں ہوٹل ڈھونڈنے لگیں، سٹیشن کے قرب میں ایک ہوٹل نظر آیا تو وہاں پہنچ گئے۔ وہاں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے مکھیوں نے رت جگا کیا ہو۔ معلوم نہیں وہاں مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہاں ہو سکتا ہے کوئی اچھا اور بیٹھنے کے لائق ہوٹل موجود ہو۔ باہر نکل تھوڑا دور تک چلا ہونگا کہ ایک اندر جاتی گلی ہوئی گلی میں نگاہ دوڑائی تو قطار میں چائے مچھلی حلوہ پوڑی کے سٹالز نظر آئے۔ یہ حافظ ہوٹل تھا۔ پراٹھے اور چنے آرڈر کیے۔ یقین کریں یہ لاہور کے کوئی بہت مشہور چنے نہ تھے مگر اس چسکورے شخص نے ایسے چنے پنڈی میں کھائے نہ تھے۔ پنڈی والے چنوں کی بے ادبی بڑے بہترین انداز میں کرتے ہیں۔ اول وہ چنے بناتے ہوئے بڑے سائز کے چنے استعمال کرتے ہیں دوسرا وہ چنوں کا مصالحہ بنانے کی بجائے اس کا شوربہ بنا ڈالتے ہیں۔ کم از کم لاہوری ایسی گستاخی نہیں کرتے اور چنوں کا اصلی حق ادا کرتے ہیں۔
صبح سات بجے دوست کے گھر پہنچا تو یوں محسوس ہوا جیسے بستر کب سے میرا متلاشی ہو۔ جاتے ہی سو پڑا۔ دوپہرے جب آنکھ میری کھلی تو اہل پاکستان جمعہ کی نماز ادا کر چکے تھے۔ رکشہ چونکہ لاہور کی شاہی سواری ہے تو آپ پر لازم ہے اس کا سفر کرنا۔ سو اسی پر الحمرا ہال پہنچے۔
الحمرا کی عمارت پر لگے پینافلیکس میں فیض نے ہمارا استقبال کیا۔ اندر داخل ہی ہوئے تو کامریڈ زوار سے ملاقات ہوئی۔ یوں تو میری ان سے شناسائی نہیں مگر درانی کے توسط سے اچھی سلام دعا رہی۔ فیض فیسٹیول کا آغاز "کیفی اور فیض" کے سیشن سے تھا اور جمعہ کے دن ایک یہی پروگرام طے تھا جس میں ایک طرف کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی اور دوسری طرف فیض کی دُختر سلیمہ ہاشمی سے گفتگو تھی۔
ہال میں داخل ہونے لگے تو دروازے پر یہ عبارت آویزاں تھی silence and smile: smile to solve problems and silence to avoid problems۔ ہم پاکستانیوں کے یہی تو دو مسائل ہیں۔ اول ہم بولتے زیادہ ہیں اور بے تکا بولتے ہیں اور جب فضول کی نکتہ چینی سے نقصان اٹھاتے ہیں تو دوسرے پر ہی غصہ ہوتے ہیں۔ اگر چپ نہیں رہ سکتے تو کم سے کم مشکل میں غصے کی بجائے مسکرا دیا جائے تو بہتری ہی ہوگی۔
کیفی اور فیض پر سیشن چار بجے تھا۔ ہم سیشن سے 15 منٹ پہلے پہنچے۔ الحمرا کے ہال نمبر ایک میں لگ بھگ چھ سو نشستیں ہیں۔ 80 فیصد ہال بھر چکا تھا۔ میں نے اپنی 27 سالہ زندگی میں 150 کے قریب ایونٹس میں شرکت کی ہوگی ان میں ادبی ثقافتی سائنسی کانسرٹ کی کیٹیگری شامل ہیں۔ میں نے ہمیشہ ہی عوام کو وقت سے پہنچتے نہیں دیکھا۔ یہاں شاید جلدی پہنچنے کی ایک وجہ جاوید اور شبانہ بھی تھے۔ ہال کے جلدی بھر جانے کا ڈر ہی عوام کو وقت سے پہلے کھینچ لایا۔
https://www.youtube.com/watch?v=c834FcN5z5o
ہال میں جب جاوید اختر داخل ہوئے تو کوئی باقاعدہ اناؤنسمنٹ نہ ہوئی۔ پہلی نشست پر بیٹھے سامعین نے جاوید کو داخل ہوتے دیکھا تو تالیاں بجانے لگے۔ اوپر کی نشست پر بیٹھی عوام نے غور کیا تو بس تالیوں کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ۔ لوگ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بھارت کے ایک عظیم شخص کا استقبال اس کے شایانِ شان تھا۔ میں نے یوٹیوب پر جاوید کے جشنِ ریختہ والے تمام سیشن دیکھ رکھے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے جاوید یوٹیوب کی سکرین سے یکدم نکل کر سامنے آ گئے ہوں۔ میرے لئے یہ کسی اعزاز سے کم نہ تھا کہ میں اس ہال میں بیٹھا ہوا ہوں جہاں جاوید اختر بھی موجود ہیں۔
تین بٹا تین کا لُوسی عدیل ہاشمی سنجیدہ اردو بولتے ہوئے بالکل بھی اچھا معلوم نہ ہوا۔ شاید مزاح ہی اس کی شخصیت کا خاصا ہے۔ سٹیج پر میزبانی عدیل کے ذمہ تھی۔ کسی نے اپنی تہذیب سے محبت دیکھنی ہو تو جاوید اور شبانہ کو دیکھے۔ جاوید اپنے خاص اسی کرتے اور پاجامے میں جو انکی پہچان ہے اور کاندھوں پر ایک شال۔ شبانہ نے ساڑھی پہن رکھی تھی اور بالوں میں ایک عدد پھول سجا رکھا تھا۔ کیفی اور فیض کا سیشن شروع ہوا۔ گفتگو تھی سلیمہ ہاشمی اور شبانہ اعظمی سے۔ یوں لگتا تھا جیسے فیض اور کیفی کا زمانہ لوٹ آیا ہو۔
سلیمہ نے دستِ صبا کے انتساب سے کمال پردہ اٹھایا۔ مجھے یاد ہے جب میں نے فرسٹ ائیر میں دست صبا پڑھی تھی تو انتساب کسی کلثوم نامی محترمہ کے نام تھا۔ میں بھی سوچتا تھا بھلا یہ کلثوم کون ہے جس سے فیض صاحب کا عشق رہا۔ فیض جب انتساب ایلس کے نام کرنے لگے تو سوچا ایلس نام بہت عجیب لگے گا سو ایلس کا مسلمان نام جو فیض کی والدہ نے "کلثوم" رکھا تھا فیض نے وہی نام استعمال کیا جبکہ ایلس کو کلثوم نام کسی طور پر بھی پسند نہ تھا۔ انہیں شبنم اور ریحانہ نام پسند تھے۔ دست صبا جب قریہ قریہ پہنچی تو لوگ چہ میگوئیاں کرتے بھلا یہ خاتون کلثوم کون ہے اور اس سے فیض کا کیا چکر ہے۔ لوگوں کو اس بات کی بالکل خبر نہ تھی کہ یہ ایلس کا ہی اسلامی نام ہے جو فیض کی والدہ نے رکھا ہے۔ سلیمہ نے ایک قصہ بیان کیا جو انہی کے خاندان میں ہوا جب ایک خاتون نے سلیمہ سے پوچھا کہ بھلا یہ کلثوم کون ہے جس سے تمہارے ابا نے چھپ چھپا کر نکاح کیا ہوا ہے۔ یہ بات جب ایلس تک پہنچی تو وہ خوش ہوئیں جبکہ اول اول وہ اس نام کے انتساب سے کچھ خوش نہیں تھیں۔
ایک بار فیض صاحب سلیمہ کے لگاتار جاب کرنے سے تھوڑا سا تنگ آئے تو کہنے لگے سلیمہ یہ جاب کرتے کرتے تم تھکتی نہیں ہو کیا؟ ہمیں دیکھو ہم نے پانچ برس فوج کی نوکری کی، پانچ برس صحافت کی، پانچ برس جیل کاٹی، پانچ ہی برس جلا وطن رہے۔ ہم نے تو کوئی کام بھی پانچ برس سے زیادہ نہیں کیا۔ سلیمہ ہاشمی نے جب جملہ پورا کیا تو ساتھ والی نشست پر براجمان شبانہ نے جملہ بولا۔ "فیض صاحب نے ایک کام تو عمر بھر کیا - شاعری"۔ ہال میں تالیاں گونجنے لگیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=z_vmpW4Z180
شبانہ اعظمی نے اپنی فیض صاحب کیساتھ ایک ملاقات کا حال بتایا کہ پہلی بار فیض صاحب سے ملی تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ شبانہ نے فیض صاحب سے کہا مجھے آپ کے سارے شعر یاد ہیں، میں آپکی بہت فین ہوں۔ فیض صاحب نے کہا اچھا پھر ہمیں بھی تو معلوم ہونا چاہیے۔ شبانہ نے شعر سنایا "دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے، یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے" فیض صاحب نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا "ارے یہ تو میر کا شعر ہے"۔ شبانہ نے فوراً شعر پڑھا "بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی"۔ فیض صاحب نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور کہا "میر تقی میر تک تو بات ٹھیک تھی مگر بہادر شاہ ظفر کو میں شاعر نہیں سمجھتا"۔
خیر یہ تو فیض صاحب سے پہلی ملاقات کی گھبراہٹ تھی جس نے شبانہ کو انکے شعر ایک لمحے کیلئے بھلا دیے تھے جبکہ الحمرا کے ہال میں بیٹھا ہوا ایک ایک شخص گواہ ہے کہ جس طرح نظم "بول کہ لب آزاد ہیں ترے" شبانہ جی نے پڑھی ویسی شاید ہی کسی نے ترنم سے پڑھی ہو کہ انکی آواز ایک سحر طاری کر گئی۔ یقیناً یہ کیفی کی دُختر کا اپنے والد کے دوست کیلئے ایک عظیم خراج تحسین تھا۔
شبانہ کی والدہ شوکت اعظمی کی کیفی سے محبت کی داستان بھی انتہائی دلچسپ اور حسین ہے۔ ایک کیمونسٹ شاعر اپنی محبت میں کس قدر شگفتگی رکھتا ہے یہ تب معلوم ہوا جب شبانہ نے شوکت اعظمی کی کیفی سے پہلی ملاقات کا ذکر کیا۔ یہ 1940 کی دہائی تھی۔ ایک مشاعرے میں کیفی اعظمی، سردار جعفری اور مجروح سلطان پوری موجود تھے۔ شوکت اس زمانے میں بھی ایک ماڈریٹ خاتون تھیں۔ انہیں دقیانوسی مرد بالکل ناپسند تھے۔ کیفی نے مشاعرے میں نظم "عورت" پڑھی۔ یہ کیفی کی عورت کے حوالے سے ایک آزاد خیال اور وسعتِ سوچ کی حامل نظم ہے۔ شوکت مشاعرے میں کیفی سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکیں اور دل میں ٹھان لیا کہ اگر شادی کروں گی، اسی شخص سے کروں گی جو عورت کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔
مشاعرہ ختم ہوا۔ کیفی کے گرد لڑکیوں کا گھیرا تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کیفی اعظمی لڑکیوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔ شوکت کو شرارت سوجی۔ ڈائری نکالی، اس کے پہلے صحفہ پر سردار جعفری سے آٹوگراف لیا اور پھر کیفی سے آٹو گراف لینے کے لئے ڈائری کا وہی صفحہ آگے کر دیا جس پر پہلے سے سردار جعفری کے دستخط موجود تھے۔ کیفی نے اس صحفے پر ایک مہمل شعر لکھا۔ جس کا کوئی مفہوم نہ تھا۔ اس پر شوکت کو غصہ آیا تو جل کر کیفی سے پوچھنے لگیں بھلا یہ کیا حرکت ہے ایسے بھی کوئی آٹوگراف دیتا ہے کیا۔ اس پر کیفی کہنے لگے آپ نے بھی تو پہلے آٹوگراف سردار جعفری سے لے لیا۔ ایسی حرکت پر ایسا ہی آٹوگراف دیا جا سکتا ہے۔
کیفی کی نغمہ نگاری کا ذکر ہوا تو مجھے جگجیت کی آواز میں کیفی کی غزل یاد آنے لگی۔ تم اتنا جو مسکرا رہے ہو، کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو۔ شبانہ نے بتایا، ابا کہتے تھے فلم کیلئے گیت لکھنا ایسے ہے جیسے پہلے قبر کھود دی جائے اور پھر کہا جائے اس میں مردہ گاڑو کیونکہ فلمی گیت کی دھن پہلے بنتی ہے اور اس پر بول دھن کے مطابق بعد میں لکھے جاتے ہیں۔ میری نغمہ نگاری اس لئے کامیاب چل رہی ہے کیونکہ میں مردے اچھے گاڑ لیتا ہوں۔
کیفی اور فیض کے سیشن کے بعد کامریڈ درانی اور میں لاہور سے ایک دوست احمد کے ہمراہ پاک ٹی ہاؤس نکل گئے اور وہاں گھنٹہ بھر فیض فیسٹیول اور فیض کی شاعری و شخصیت پر گفتگو چلتی رہی۔ مدیحہ گوہر کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اجوکا تھیڑ کے فنکاروں نے اسی شام سات بجے ایک پنجابی سٹیج پلے کالا مینڈھا بھیس پیش کیا۔ ہم لوگ پاک ٹی ہاؤس سے بیس منٹ تاخیر سے کیا پہنچے ہال فل تھا۔ پندرہ منٹ ہال کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر انتظار کیا مگر بے سود۔ یہ کمال پنجابی ڈرامہ پرفارمنس دیکھنے کی حسرت لئے واپس لوٹے۔ اس امید کے سہارے یہ غم غلط کرتے رہے چلو صبح پہلا سیشن جاوید اختر کا ہے اس میں وقت سے پہلے پہنچا ہوگا۔
فیض فیسٹیول کے دوسرے روز کا پہلا سیشن تھا "محبت کی زبان"۔ گفتگو تھی امجد اسلام امجد اور جاوید اختر سے اور میزبانی اردو کی ایک خاتون شاعرہ امبرین صلاح الدین کے سپرد تھی۔ پہلے روز کی طرح ہال وقت سے پہلے ہی کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ جاوید اختر کی شاعری اپنی جگہ مگر جاوید جی کی شخصیت ان کی شاعری سے بہت آگے اور بلند مقام پر نظر آتی ہے۔ جاوید جب بولتے ہیں ان کا تجربہ اور گہرا مطالعہ سننے والے کو متاثر کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ کہنے لگے شاعری صرف محبت کی ہی نہیں بلکہ ضمیر کی آواز بھی ہے سو شاعر کا کام ہے کہ اسکی شاعری حقیقت دکھاتی ہو نہ کہ سچ پر پردے ڈالتی ہو۔ بات شعری تراجم کی چلی تو مثال دی کہ اگر آپ عطر کی ایک شیشی سے دوسری شیشی میں عطر ڈالیں تو پھر چند قطرے پہلے والی شیشی میں رہ جائیں گے یہی حال زبان کا ہے۔ چاہے انگریزی نظم کا اردو ترجمہ کیا جائے یا اردو سے انگریزی پوری طرح مفہوم اور احساس کا منتقل ہونا ممکن نہیں۔
ایک اور کمال کی بات بتائی جو ہم جیسوں نے پہلے نہ سنی تھی۔ انگریزی زبان کے جملے کا مفہوم اس کے آخری لفظ میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر وہ لفظ نہ ہو تو جملہ سمجھ میں نہیں آتا جیسے I am looking for you۔ اس جملے میں you نکال دو تو جملہ بے معنی۔ اور I am going home اس میں home نکل جائے تو جملہ ادھورا ہے۔
نئی نسل نے شعلے فلم تو دیکھ رکھی ہے مگر انہیں شاید یہ معلوم نہ ہو اس کا سکرین پلے جاوید اختر نے ہی لکھا تھا۔ یہ وہ واحد بھارتی فلم ہے جس کے ڈائیلاگ اب تک اتنے ہٹ ہیں کہ آج کے ڈراموں، فلموں اور stand up کامیڈی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جاوید کہنے لگے، ایک اعتراض تو اس فلم پر یہ ہوتا تھا کہ فلاں سین اس انگریزی فلم سے کاپی ہے اور فلاں سین فلاں فلم سے۔ اگر تو یہ کاپی ہوتا تو میں نے اب تک شعلے جیسی کامیاب کوئی درجن بھر فلمیں تو بنا لی ہوتیں۔ کیونکہ کاپی کرنا تو آسان کام ہے۔ ’گبر‘ آج بھی زندہ ہے۔ شاید تنقید والوں کو سوچنا چاہیے۔ اس پر امجد صاحب نے اصرار کیا کہ جاوید بھائی آپ نے ناقدین کو کسی زمانے میں ایک لاجواب جواب دیا تھا وہ دہرا دیں۔ جاوید نے کہا "دیکھیں بھئی اگر تو کسی ایک جگہ سے کوئی چیز کاپی کی جائے اسے plagiarism کہتے ہیں اور اگر دس جگہ سے کوئی چیز کاپی کی جائے تو اسے research کہتے ہیں۔" جاوید اختر کا حسِ مزہ بھی کمال ہے۔ پہلی نشست پر جو مہمان گرامی موجود تھے جنہیں جاوید بھی جانتے ہیں انہوں نے جاوید کو دو چار نظمیں سنانے کی گذارش کی جس پر جاوید بولے، دیکھیں میں نے اگلے سال پھر پاکستان آنے کا وعدہ کیا ہے کچھ نظمیں اگلے برس کیلئے رہنے دیں۔ مہمان خصوصی نے کہا کیا معلوم میں اگلے برس زندہ نہ ہوں۔ جاوید نے فوراً جملہ کہا "آپ تو یونہی بس ہر سال امید دلاتے رہتے ہیں۔"
صحافت میں سیاست اس موضوع پر وسعت اللہ خان اور ماروی سرمد سے حامد میر نے سوال و جواب کیے۔ میں نے پہلی بار وسعت کو سکرین اور ایڈیٹوریل پیج سے باہر دیکھا۔ نہ کوئی سوٹ، نہ مہنگے جوتے، نہ کوئی پروٹوکول۔ وسعت نے ایک سادہ شرٹ جینز اور پاؤں میں سینڈل پہن رکھے تھے۔ ہاتھ میں کلپ بورڈ جس پر چند خالی صحفے، ہاتھ میں قلم اور کاندھے پر ایک فولڈر بیگ۔ یقیناً وسعت کو دیکھ کر لگا کہ جیسا ایک صحافی کا حلیہ ہونا چاہیے یہ ویسا ہی ہے۔ اس نے خود کو صحافی رکھا ہے کوئی celebrity نہیں۔
ماروی سرمد سے یوں تو بذریعہ ٹویٹر آشنائی ہے۔ کبھی کبھی اہلِ یوتھ سے نالاں ہوں تو دشنام ترازی پر اتر آتی ہیں مگر فیض میلے پر ان کا ایک دوسرا روپ دیکھنے کو ملا۔ کمال کی سوچ اور باتیں اور زوایہ نگاہ دور تک کا۔ گفتگو شروع ہوئی تو ذکر ہوا فیک نیوز کا۔ جس نے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کو متاثر کر رکھا ہے۔ ماروی سرمد نے کہا یہ جو fake news buster کا ٹویٹر پر منسٹری آف براڈکاسٹ نے اکاؤنٹ بنایا ہے اس کا فائدہ کوئی نہیں کیونکہ کسی بھی خبر کی تردید کرنا حکومت کا کام نہیں، یہ کام صحافت کا ہے۔ حکومتیں تو خود خبر کا اپنے مفاد یا خود کو نقصان سے بچانے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ حامد میر نے جب وسعت اللہ خان سے سوال کیا جناب یہ فیک نیوز کا کیا کیا جائے تو وسعت نے خوب جواب دیا۔ حامد اگر آپ اپنے وٹس ایپ گروپ leave کر دیں تو آپ ایک دن بھی کیپیٹل ٹاک نہیں کر پائیں گے۔ وسعت نے اپنا دور قدیم کا کی-پیڈ موبائل فون (Non Smartphone) لہراتے ہوئے کہا اگر آپ میری طرح یہ فون استعمال کرنا شروع کر دیں تو آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی اور فیک نیوز نہیں پھیلے گی۔
دورِ حاضر کی صحافتی آزادی پر حامد نے سوال داغا تو وسعت نے کہا مجھے ضیاالحق کا دور بہت یاد آ رہا ہے۔ میں انہیں بہت مِس کرتا ہوں۔ جب صرف صحافی کو پکڑ کر جیل میں ڈالا جاتا تھا۔ آج کے دور میں کسی صحافی کا جیل جانا کسی لگژری سے کم نہیں۔ اب صحافی جیل نہیں جاتا سیدھا غائب کر دیا جاتا ہے۔ اب سچ بولنے کی تو آزادی ہے مگر سچ بولنے کے بعد کی آزادی میسر نہیں ہے۔ وسعت نے پھر آزادی رائے پر حامد سے سوال پوچھا حامد کیا آپ ایس پی طاہر داوڑ پر انویسٹیگیشن رپورٹ کر سکتے ہیں؟ حامد نے کہا، ناممکن۔ وسعت نے پھر پوچھا حامد کیا آپ ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن پر پروگرام کر سکتے ہیں۔ حامد نے کہا impossible۔ وسعت نے اگلا سوال کیا۔ حامد کیا آپ کیک پیسٹری بنانے والی بیکری کے ناجائز پیسے پر کوئی شو کر سکتے ہیں۔ حامد نے کہا "نہیں"۔
سیشن ختم ہوا تو organizers نے سٹیج پر موجود وسعت، حامد اور ماروی کے گرد دائرہ بنا لیا تاکہ یہ تینوں سٹیج کے پیچھے سے کمرے میں نکل جائیں اور عوام ان کے پاس نہ آنے پائے۔ حامد میر اور ماروی سرمد تو عوام سے ملے بنا بیک سٹیج نکل گئے مگر وسعت نے organizers کا حصار توڑا اور لوگوں میں شامل ہو گیا۔ میں سوچتا رہا واقعی وسعت اللہ خان ایک صحافی ہے، ایلیٹ نہیں۔ صحافی جو سیاستدان سے ہر سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے، اس صحافی سے سوال کرنا عوام کا حق ہے۔