قدیم مصر میں 'فرعون' بادشاہوں کا لقب تھا یہ بادشاہ وہاں کے لوگوں کے لئے خدا کا درجہ رکھتے تھے۔ یعنی اس دور میں زمینی خدا صرف محاوروں یا طنز و تنقیدی جملوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں زمینی خدا بنفس نفیس تخت پر براجمان ہو کر عوام پر حکمرانی کرتے اور خود کو خدا سمجھنے اور کہلوانے اور ہر چیز پر اپنی قدرت ثابت کرنے پر فخر کیا کرتے تھے۔
قرآن مجید میں بھی ایک فرعون کا ذکر ملتا ہے جس نے اپنے خدا ہونے دعوی کیا۔ جس پر قانون قدرت حرکت میں آیا اور اس فرعون نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر کے لئے صاحب علم لوگوں کو بلایا گیا۔ انہوں نے خواب کی تعبیر کچھ یوں بیان کی کہ عنقریب قوم بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو آپ کی بادشاہت کا خاتمہ کر دے گا۔ یہ سنتے ہی فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جائے، جس پر عمل درآمد کے لئے فرعون نے دائیوں اور سپاہیوں پر مشتمل ٹیمیں مقرر کر دیں۔ بنی اسرائیل میں جہاں بھی لڑکا پیدا ہوتا اسے قتل کردیا جاتا اور لڑکیوں کو چھوڑ دیا جاتا۔ فرعون کی سوچ یہ تھی کہ نہ کوئی لڑکا زندہ بچے گا اور نہ ہی میری بادشاہت کبھی ختم ہو گی۔ شاید وہ ادراک نہیں رکھتا تھا کہ اللہ جو تمام جہانوں کا حقیقی رب ہے، جب ایک کام کو کرنے کا فیصلہ کر لے تو زمینی خداؤں کی ہر تدبیر ناکام ہوجاتی ہے، پھر کچھ ایسا ہی ہوا۔
اللہ تعالی نے ایسے اسباب پیدا کیے کہ بنی اسرائیل کا ایک بچہ (حضرت موسی علیہ السلام) فرعون کے محل تک پہنچے، وہیں پرورش پائی اور جوان ہوئے، پھر ایک قتل سرزد ہونے پر ہجرت کر گئے۔ کچھ سالوں بعد جب اللہ کا حکم ہوا تو اسی فرعون کے پاس قوم بنی اسرائیل جو کہ فرعون کی غلامی میں تھی کو آزاد کرنے کا مطالبہ لے کر پہنچے۔ لیکن، فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر جب اللہ کا عذاب مختلف شکلوں میں ان پر آنے لگا تو فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام سے عذاب کے خاتمے کے لیے اللہ سے دعا کرنے کا کہا۔ حضرت موسی علیہ سلام نے اس شرط پر دعا کی کہ عذاب ٹلنے کی صورت میں بنی اسرائیل کی قوم فرعون کی قید سے آزاد ہو گی۔ فرعون نے اس پر حامی بھر لی اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کی دعا کے نتیجے میں عذاب ٹل گیا۔
جس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی قوم کو لے کر وہاں سے ہجرت کر کے جانے لگے تو فرعون کو اپنی شکست برداشت نہ ہوئی۔ کیونکہ، اس کی خدائی کا دعوی اللہ کے عذاب کے سامنے ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ لہذا اس نے موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل قوم پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ان کا پیچھا کرتے ہوئے اللہ کی پکڑ میں آگیا اور دریا برد ہو کر ہلاک ہوگیا۔
فضل الرحمن کے دھرنے کے نتیجے میں بڑھنے والے دباؤ اور اتحادیوں کے بدلتے تیور دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے بیمار نوازشریف کو علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل پر نہیں۔ لیکن جونہی مولانا کا دھرنا ختم ہوا نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی عدالت سے اجازت ملی تو وزیراعظم کو اچانک کسی نے احساس دلایا کہ یہ تو آپ کی ہار ہے۔ اس طرح آپ کا کرپشن کے خلاف جنگ کا بیانیہ کمزور ہو گا، تو عمران خان نے نواز شریف کے باہر جانے کے لیے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لئے 7 ارب روپے کے بانڈ جمع کروانے کی شرط رکھ دی۔ جسے عدالت نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے شہباز شریف کی گارنٹی پر اکتفا کیا اور نواز شریف کو علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔
اس طرح کے طرز عمل سے ملک کے اداروں اور خود وزیراعظم کی ساکھ کو نقصان ہوا۔ ہر کام رائج قانون کے تحت ہی کیا جانا چاہیے۔ اپنی مرضی سے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے قانون بنا کر یا ماورائے قانون اقدامات سے کبھی بھی اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جس قانون پر اتفاق رائے ہو جائے، جو آئین کی شکل میں موجود ہے اس پر عمل کیا جائے۔
چیئرمین نیب کہتے ہیں کہ ہواؤں کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ ہواؤں کا رخ کون تبدیل کرتا ہے؟ خدارا ہواؤں کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیں اور شکر کریں کے ہوا اللہ نے اپنے اختیار میں رکھی ہے۔ اگر کسی کم ظرف انسان کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ ایسے لوگوں کو سانس لینے کا بھی حق نہ دیتا جہاں اسے کوئی بغاوت کا جراثیم نظر آتا۔
وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ طاقت ور کے لئے قانون اور ہے اور کمزور کے لئے اور ہے یعنی سابق وزیراعظم نوازشریف ان کی نظر میں طاقتور ہیں اور انہیں باہر علاج کی اجازت دینا عدالت کا غلط فیصلہ ہے۔
چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں طاقتور کا طعنہ نہ دیا جائے کیونکہ ہم نے ایک وزیراعظم کو پہلے فارغ کیا تھا اور اب نوازشریف کو بھی نااہل قرار دینے کے بعد آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں سزا سنائی ہے۔ مشرف کیس کا بھی فیصلہ آنے والا ہے۔ لہذا ہم طاقتوروں سے ڈرنے والے نہیں اس لئے آپ احتیاط کریں۔
غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان صرف وزیراعظم کے عہدے کو انتہائی طاقتور عہدہ سمجھتے ہیں جبکہ چیف جسٹس صرف وزیراعظم کے عہدے کی بات نہیں کر رہے وہ طاقت میں آرمی چیف کے عہدے کو حصہ دار سمجھتے ہیں۔
میری نظر میں طاقتور کا لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص اتنی قدرت رکھتا ہو کہ قانون بھی اس سے ڈرتا ہو یا وہ بوقت ضرورت قانون کو اپنی مرضی سے تبدیل کر لے یا فوری طور پر نیا حکم نامہ جاری کر دے جو قانون کی حیثیت اختیار کر لے اور جج صاحبان سے آئین قانون اور ملک کی وفاداری کے بجائے اپنی ذات کی وفاداری کا حلف لے۔ اگر کوئی انکار کرے تو اس جج کو برخاست کر دے اور پھر بھی چین نہ پڑے اور کسی جج سے بغاوت کی بو آئے تو اسے بالوں سے پکڑ کر، دھکے دے کر، سبق سکھائے اور ججز سے طاقت کے زور پر آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل کر لے۔ تو حضور یہ ہوتا ہے طاقتور۔
وزیراعظم پارلیمان کا سربراہ ہوتا ہے اور پارلیمان جو قانون دو تہائی اکثریت سے منظور کرے، عدالت اسے بھی اٹھا کر باہر پھینکتی رہی ہے اور دوسری طرف ایک شخص کو آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیتی ہے۔ کہنے کو آسان ہے اس لیے وزیراعظم کو طاقتور گردانا جاتا ہے۔
میری نظر میں تو 72 سالوں میں کروڑوں ووٹ لے کر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے اس نے وزیراعظم کے عہدے کو مظلوم بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آئین اور قانون سے نفرت کرنے والے آئین تشکیل دینے والی پارلیمان کے وزیراعظم کو آئینی اور قانونی طریقے سے آئین بنانے کے جرم کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ جو خود تو مدت سے زیادہ قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن وزیراعظم کو اس کی آئینی اور قانونی مدت بھی پوری نہیں کرنے دیتے۔ وزیراعظم جس طاقتور کو ہٹانے کا آئینی اختیار رکھتا ہے وہ طاقتور ہر وزیراعظم کو کبھی آئینی اور قانونی اور کبھی غیرقانونی طریقوں سے ہٹاتا رہا ہے۔
کہنے کو آسان ہے اس لیے وزیراعظم ہی طاقتور ہے۔ جمہوری نظام کا وزیراعظم اس قدر بااختیار نہیں ہو سکتا کہ اس کے لئے طاقتور کا لفظ استعمال کیا جائے کیونکہ وزیراعظم بھی آئین اور قانون کا پابند ہوتا ہے۔ جمہوری وزیراعظم طاقت کے زور پر حکمرانی نہیں کرتا۔
میری نظر میں وزیراعظم اور چیف جسٹس دونوں ہی طاقتور کے لفظ کی غلط تشریح کر رہے ہیں۔ کسی جمہوری یا سیاسی لیڈر کی اصل طاقت جس سے قانون بھی گھبراتا ہے وہ اس کا عہدہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ عوام کی طاقت ہوتی ہے، جس کا غلط استعمال کر کے وہ ہنگامہ آرائی، ہڑتال، توڑ پھوڑ، بغاوت یا اس قسم کے دوسرے حربے استعمال کر کے قانون کو اس کی عملداری سے روک سکتا ہے یا اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لئے عدالتوں پر دباؤ بنا سکتا ہے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم ماضی میں اس کی ایک مثال رہے ہیں۔
نواز شریف نے دور اقتدار میں باوجود اپنے خلاف فیصلہ آنے کے اپنی عوامی طاقت کا غلط استعمال نہیں کیا جبکہ ماضی میں وہ ایک بار ایسا کر چکے ہیں۔ ماضی میں شاید وہ طاقتور یا طاقتوروں کے نمائندے ہوں گے لیکن اس بار صورت حال قدرے مختلف ہے۔ انہوں نے نہ تو اپنے عہدے کا کوئی غلط استعمال کیا اور نہ ہی عوامی طاقت کے ذریعے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ بلکہ، اس کے برعکس عدالت کے ہر فیصلے پر فوری عملدرآمد کے لئے تیار ہو گئے۔ فیصلے پر اعتراض اور اس کا اظہار ضرور کیا لیکن فیصلہ آتے ہی وزیراعظم کا عہدہ چھوڑا اور پھر دوسرا فیصلہ آتے ہی لندن سے گرفتاری دینے پاکستان آ گئے۔
اس لیے وزیراعظم اور چیف جسٹس صاحب سے میری گزارش ہے کہ طاقتور کی بحث نہ چھیڑیے صاحب! ہمیں بھی اچھا نہیں لگتا بار بار خراب ماضی کو یاد کروانا اور اداروں پر تنقید کرنا، بڑی مشکل سے ہم نے اپنا حدف تنقید حکومتی کارکردگی کی طرف موڑا تھا۔ آپ دونوں نے پھر ہمیں اس نا ختم ہونے والی ناپسندیدہ بحث میں الجھا دیا۔ ہم تو آپ دونوں کو بھی مظلوم سمجھتے ہیں اور طاقتور سے بھی محبت کرتے ہیں۔