میری سٹوری کے ناقابل تردید ثبوت موجود، امریکی فرم سے فرانزک کروایا: احمد نورانی

05:56 PM, 22 Nov, 2021

نیا دور
احمد نورانی نے کہا ہے کہ ایک صحافی ایسی ہی خبر کو تحریر میں لاتا ہے جس کا ناقابل تردید ثبوت موجود ہو۔ سوال یہ کہ ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ میں وہ کس سے بات کر رہے ہیں، تو میری سٹوری کو اگر غور سے پڑھا جائے تو اس کا جواب مل جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے دو ماہ قبل یہ آڈیو ریکارڈنگ ملی جس کو میں نے شک کی نگاہ سے ہی دیکھا کہ اس میں موجود آواز سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہے بھی یا نہیں اور یا کسی بھی حوالے سے ٹیمپرڈ تو نہیں ہے؟ کیونکہ اس میں بہت ہی اہم اداروں اور شخصیات کا ذکر تھا۔ یہ چیز بڑی واضح تھی کہ ایسی کوئی بھی خبر سامنے آنے سے قانونی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنی سٹوری پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہر چیز کی احتیاط کرنا تھی۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے میں نے آواز کی جانچ کروائی کہ آیا یہ اوریجنل ہے یا نہیں۔ اس مقصد کیلئے ہمیں ایک دوسرا وائس سیمپل چاہیے تھا، وہ بجائے میں نے کسی سے لینے کے ریڈیو پاکستان کی آفیشل ویب سائٹ سے حاصل کیا۔ وہاں سے ہمیں آواز کے بہت سے سیمپلز ملے جس کا جب آڈیو سے میچ کیا گیا تو اس کا سو فیصد رزلٹ آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر ہنسی آ رہی ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ اس آڈیو کو کاٹ چھانٹ کرکے بنایا گیا کیونکہ میں نے جس امریکی فرانزک لیب سے اسے چیک کرایا اس نے اپنی مکمل رپورٹ میں کہا ہے کہ اس میں کسی قسم کی ایڈیٹنگ نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ میری یہ ذمہ داری تھی کہ میں اپنی اس خبر کیلئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بھی موقف حاصل کروں۔ اس مقصد کیلئے میں نے انھیں ٹیلی فون کیا اور تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں تو انہوں نے پورے وثوق کیساتھ کہا کہ کیس کے دوران ان سے کبھی کسی فوج کے بندے نے رابطہ نہیں کیا۔ عدلیہ پر کسی قسم کا دبائو نہیں تھا۔

پروگرام کے دوران شریک گفتگو عامر غوری نے کہا کہ احمد نورانی کی خبر کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ اس سے قبل گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم اپنا بیان حلفی سامنے لے آئے تھے، اس لئے لوگوں کو شاید اس سے پریشانی ہو کہ یہ مہم ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ حکومت کے نمائندوں نے بگاڑا ہے، وہ درمیان میں آکر وکیل بن بیٹھے ہیں، وہ ثاقب نثار کی وکالت کیوں کر رہے ہیں؟

عامر غوری کا کہنا تھا کہ لیگی رہنما ناصر بٹ نے بتایا ہے کہ ابھی تو اور بھی ٹیپس موجود ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوگا۔ تاہم میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ فوری طور پر اس معاملے سے خود کو الگ کرلے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں غیر ضروری تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ کے موجود چیف جسٹس کو چاہیے کہ اگرچہ یہ معاملات عدلیہ کے سابق ججوں کے بارے میں ہیں، انھیں اس پر اوپن انکوائری شروع کرنی چاہیے۔

مطیع اللہ جان کا بھی اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ حکومت نے نہیں کرنا کہ وہ اس معاملے میں فریق ہے یا نہیں، اس تمام معاملے کے جو حقائق اور جو تاریخ ہے، اس میں حکومت تو کیا اس کے ماتحت تمام ادارے بھی اس میں فریق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی سابق چیف جسٹس کی بات نہیں بلکہ حاضر سروس ججوں، جرنیلوں اور موجودہ حکومت کے وزرا کی بھی ہے۔ یہ تو اس کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کروائی تو وہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بہت ہی سنگین ہے کیونکہ دو حاضر سروس معزز ججوں نے صرف بیرون ممالک چلنے والی پانامہ لیکس کی خبروں پر بغیر ٹرائل کئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیدیا تھا۔ وہ جج ابھی تک سپریم کورٹ کا حصہ ہیں۔ کیا موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد کو اپنے ادارے کی عزت کی خاطر اس بات کا نوٹس نہیں لینا چاہیے؟ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ آنکھیں بند کر لینے سے یہ بلا ٹل نہیں جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) کیخلاف بیانات دینے سے حقائق نہیں بدلیں گے۔ یہ آڈیو ن لیگ کی طرف سے نہیں بلکہ ایک صحافی نے جاری کی ہے۔ اب لوگوں کو مزید گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔
مزیدخبریں