اعداد وشمار کے مطابق صرف آٹو سیکٹر سے 10 ہزار کے قریب پروفیشنلز کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ مختلف پارٹس بنانے والی کمپنیوں نے فیکٹریوں کو 3 شفٹوں سے 2 اور 2 سے ایک پر منتقل کر دیا ہے۔ کار بنانے والی بڑی کمپنیوں نے مہینے میں 8 سے 20 دن پروڈکشن روکی ہوئی ہے۔
آٹو پارٹس ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین منیر بانا کے مطابق ان کا اندازہ ہے کہ 10 سے 15 ہزار افراد کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کا دباؤ بھی آٹو سیکٹر کی فروخت پر اثر انداز ہو رہا ہے، کار سازی کے کاروبار سے منسلک کمپنیاں دیگر کے مقابلے میں کم منافع کماتی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کی معاشی شرح نمو سست روی کا شکار ہے اور معاشی سست روی کے باعث معیشت کیلئے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات نے جنوری 2019 میں لیبر فورس سروے رپورٹ 18-2017 جاری کی تھی جس کے مطابق پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد میں ایک لاکھ 70 ہزار کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد بے روزگار افراد کی تعداد بڑھ کر 37 لاکھ 90 ہزار ہوگئی ہے۔