بقول شخصے
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
نوازشریف ملکی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولتے جب نوازشریف بڑے بڑے گیم چینجر منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہوتے تھے اور عمران خان یہ فلسفہ بگھار رہے ہوتے تھے کہ سڑک سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔ نوازشریف نے اس پھبتی کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہاتھا: کچھ لوگ روڈ بناتے ہیں اور کچھ لوگ اسی روڈ پر روڈ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ یہ بات تو مجھے اب سمجھ آئی ہے کہ پیٹ کسی روڈ سے نہیں بلکہ روڈ کنارے قائم کسی لنگرخانے سے بھرتا ہے۔ عمران خان نے نواز حکومت کے جس انفراسٹرکچر پر تنقید کی اور جس کی بنیاد پر اپنی سیاست کی عمارت قائم کی اسی عمارت کو انہوں نے دورہ امریکا میں یہ کہہ کر خود اپنے ہاتھوں مسمارکر دیا کہ: میں نے نیویارک میں سفرکیا، سڑکوں پر بہت جمپ لگے، میں یہاں کا شہری ہوتا تو ضرور پوچھتا کہ میرے ٹیکس کا پیسا کہاں گیا؟ آپ لوگوں نے ٹیکس کا پیسہ انفراسٹرکچر پر لگانے کی بجائے جنگوں میں جھونک دیا۔
ایک بات تو طے ہو گئی کہ عمران خان کا لیڈر نوازشریف ہے اور وہ اپنے لیڈر کی پالیسیوں کا امریکہ میں دفاع کر رہے ہیں اور وہ بھی انگریزی میں اوربغیر کسی پرچی کے۔ یقین کریں جب سے میں نے عمران خان کا امریکی ٹی وی کو دیا گیا وہ انٹرویو سنا ہے مجھے انفراسٹرکچر سے شدید نفرت ہو گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ انفراسٹرکچر نامی جانورمنافق ہے کہ پاکستان میں ہو تو برا ہوتا ہے اور امریکہ میں ہو تو اچھا لگتا ہے۔ اگر مجھے کبھی وزیراعظم بننے کا موقع ملا تو میں امریکہ سے وہ انفراسٹرکچر ضرور درآمد کروں گا۔ غریبوں کے پیٹ بھرے اور میرے کپتان کو اچھا بھی لگے۔ وہ موقع تو پتہ نہیں کب آئے گا۔ ابھی مجھے اتنا کہنے دیں کہ عمران خان کا لیڈر نوازشریف ہے۔
مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب شہباز شریف کی طرف سے سستی روٹی سکیم شروع ہوئی تھی۔ خدا گواہ ہے کہ ان دنوں بازاروں میں آٹے نام کی جنس مفقود ہو چکی تھی۔ حکومت آتے ہی نہ صرف آٹا باہر نکل آیا بلکہ سستی روٹی سکیم بھی شروع ہو گئی۔ عمران خان کی اس پر کسی گئی پھبتیاں آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ لیکن قدرت نے مجھے یہ دن بھی دکھایا کہ تنقید کرنے والا کسی کے کھولے گئے لنگر کا افتتاح کر رہا ہے اور ہاتھ میں سالن کی ایک پلیٹ پکڑے بڑے فخر سے نہ صرف تصویر بنوا رہا ہے بلکہ قوم کو لنگرخانوں کی اہمیت اور افادیت کے بھاشن بھی دے رہا ہے۔ میں اس پر کچھ بھی کہنے کی بجائے سراج الحق کے اس معنی خیز جملے پر اکتفا کرتا ہوں کہ: ملک کو لنگرخانوں کی نہیں بلکہ کارخانوں کی ضرورت ہے۔ امیر جماعت اسلامی کی اس بات پر مگر ایک نقد سوال ضرور چھوڑے جارہا ہوں جس کا جواب ان پر ادھار رہے گا کہ: کارخانے بنانے والوں کو کسی کے خانے کار بنانے میں دامے درمے دلے سخنے قدمے آپ کیوں شریک تھے؟
کیا آپ کو یاد ہے کہ جب عمران خان صاحب بڑے بڑے جلسوں میں لاہور اور پنڈی میٹرو بسوں کا بھد اڑایا کرتے تھے اور انہیں جنگلا بسوں کا نام دیتے تھے؟ لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ پشاور میں اسی طرح کے منصوبے کا نہ صرف افتتاح کیا گیا بلکہ اسے شہر کی قسمت بھی کہا گیا اوراس کی شان میں ایسے ایسے قصیدے پڑھے گئے کہ مجھے دورِ جہالت میں لگنے والے ایک عظیم میلے ’عکاظ‘ کی یاد آ گئی۔ مجھے یقین ہے اگر آج وہ شعرا زندہ ہوتے تو ان کی فصاحت و بلاغت بھی شرما جاتی۔ میں جب بھی شیدے کے ڈھابے پر بیٹھتا ہوں، چاچا کھڑوس میرے کان میں یہ کہہ کر بھاگ جاتا ہے: میٹرو بسوں کے معاملے میں بھی عمران خان نے نوازشریف کو اپنا لیڈر مان لیا ہے۔
یاد تو مجھے وہ وقت بھی آ رہا ہے جب عمران خان صاحب نے دھاندلی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف لانگ مارچ اوردھرنے کا اعلان کیاتھا۔ اس وقت ان کا مؤقف تھا کہ احتجاج کرنا کسی بھی پاکستانی کا جمہوری حق ہے۔ نوازشریف کہتا تھا کہ عمران خان جس فورم پر دھاندلی کی تحقیق کرانا چاہتے ہیں میں تیار ہوں لیکن وہ احتجاج نہ کریں، اس سے ملکی ترقی کا عمل رک جائے گا اور اسلام آباد بند ہوگا تو لوگوں کو آنے جانے میں پریشانی ہو گی۔ لیکن عمران خان نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ پہلے دھرنے کی ناکامی پر کچھ عرصے بعد اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی۔ آج فرق بس اتنا ہے کہ کردار بدلے ہیں۔ عمران خان خود نواز شریف کی جگہ کھڑے ہیں جبکہ ان کی جگہ مولانا فضل الرحمن نے لے لی ہے۔ ان کی حکومت کو بھی ڈیڑھ سال آنے کو ہے، وہی دن ہیں اور مارچ اور دھرنے کا نام بھی وہی ہے یعنی ’آزادی مارچ‘۔
آج وہ اپنی زبان سے وہی دلیلیں دے رہے ہیں جو کسی دور میں نواز شریف دیا کرتے تھے۔ اگر آج وہ مکمل طور پر نواز شریف کو فالو کر رہے ہیں تو زبان بندی کے اس دور میں اتنا کہنا تو میرا حق بنتا ہے کہ عمران خان نواز شریف کے راستے پر چل رہے ہیں۔ اب پتہ نہیں وہ راستہ پیارا ہے یا پھر عمران خان کا لیڈر بھی ان پڑھ پٹواریوں کی طرح نوازشریف ہی ہے۔