ابھی تک یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اس ساری کہانی کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ اور کس کے کیا مقاصد تھے؟
اس حوالے سے ملک کے معروف صحافی حامد میر نے لکھا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو اس تمام تر معاملے کو سنبھالنے اور بحران کو ختم کرانے کی کوشش کی لیکن یہ عمران حکومت ہے جو اس کو بھڑکا کر سیاسی ایندھن بنانا چاہتی ہے۔
حامد میر لکھتے ہیں کہ آرمی چیف نے اِس پریس کانفرنس کے فوراً بعد بلاول سے ٹیلی فون پر بات کی اور معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ پھر اُنہوں نے آئی جی سندھ سے بھی بات کی اور آئی جی نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ دس دن کے لئے ملتوی کر دیا۔ یوں سندھ میں ایک بہت بڑا انتظامی بحران ٹل گیا۔
رات خیر خیریت سے گزر گئی لیکن صبح کچھ وفاقی وزراء نے یہ الزامات لگانے شروع کردیے کہ سندھ پولیس نے بلاول ہاؤس کے اشارے پر چھٹی کی درخواستیں دیں۔ آئی جی سندھ کے کردار پر بھی سوالات اُٹھائے جانے لگے اور واضح ہو گیا کہ وفاقی حکومت سندھ میں پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے کے بجائے اُسے اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
آرمی چیف نے ایک بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا، وفاقی حکومت اِس بحران کو واپس لانا چاہتی ہے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دی جانے والی دھمکیوں پر عملدرآمد کا ایک راؤنڈ پنجاب میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے تو گوجرانوالہ کے جلسے کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اُس کے علاوہ مریم نواز، رانا ثناء اللہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں پر بھی مقدمے درج کر دیے گئے۔ شہباز شریف صاحب کو قید میں گھر کے کھانے کی سہولت سے محروم کر دیا گیا اور اُن کے قید خانے کو گوانتا ناموبے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حامد میر نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ معاملات کو اس نہج تک نہ پہنچا یا جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔