ایک بہت ہی عام سا عمل ہے جو ہمیں اپنے گھروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ لڑکی جوان ہوتی ہے تو اُس کے لئے ایک مُہم شروع ہو جاتی ہے جو کے اس کی زندگی کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس فیصلے میں گھر کے سب "بڑے بوڑھے" شامل ہو تے ہیں مگر جِس کی تقدیر کا یہ فیصلہ ہوتا ہے اسے شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ اور جب پیغام آنے شروع ہو جاتے ہیں تو اسے نمائش کے لئے سجا دھجا کر ہاتھوں میں طشتری تھما کر، کچھ خواتین و حضرات کے سامنے دھکیل دیا جاتا ہے ۔ تو آج کل میں بھی اس لڑکی کی مماثل صورتِ حال سے دوچار ہوں۔ فرق صِرف اتنا ہے کہ میرے ہاتھوں میں طشتری کی بجائے میری زُبان پر کُچھ کلمے، پہاڑے اور کُچھ سکول کی رٹی ہوئی چیزیں جو مُجھے ہر آنے والے مہمان کو آنکھیں بند کر کے سُنانے ہوتے ہیں۔ پچھلے دِنوں میرے کان میں بھی کُچھ چہ مگویاں پڑی ہیں آیا کہ "کوئی یکساں تعلیمی نظام متعارف ہونے جا رہا ہے"
اور میں نے خبرناموں میں یہ سُنا کہ اس نصاب سازی کے عمل میں۴۰۰ماہرین نے حِصہ لیا مگر میری نمائندگی بحثیتِ طالبِ علم کہیں نہ تھی۔ کیا مُجھے اِس سارےعمل میں حقِ رائے دہی حاصل نہیں؟ میں اس بات سی اچھی طرح باور ہوں کہ میری بات کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے گا کہ "تم تو ابھی ناسمجھ ہو،نادان ہو" کیونکہ اس کے پیچھے آپ کی یہ سوچ کار فرما ہے کہ میں اپنے بھلے بُرے کا کیا جانوں۔ اگر میں کوئی بات کہنا چاہتا ہوں تو مُجھے بار ہا آپ کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔اور ہاں میری بات میں سنجیدگی نہیں ہو سکتی۔مگر آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ آپ کو اس لئے یہ شائبہ ہے کیونکہ آپ نے آج تک میری کسی بات کو سنجیدگی سے سُنا ہی نہیں۔ایک طرف آپ مُجھے وقت سے پہلے بڑا بنانا چاہتے ہیں جِس طرح کا نصاب آپ مُجھے پڑھاتے آ رہے ہیں۔ وہ نصاب مُجھ سے میرا بچپن چھیننا چاہتا ہےاور دوسری جانب آپ میری کہی ہوئی ہر با ت کو غیر سنجیدہ خیال کرتے ہیں۔ جو میں جانتا ہوں وہ بھی تو عِلم کی ایک شکل ہی تو ہے مگر میرے عِلم کی کوئی وُقت کیوں نہیں؟ جو آپ کا سچ ہے اُسے میں کیسے مان لُوں وہ آپ کا سچ ہے۔جو آپ کا عِلم ہے اُس کی قدرومنزلت صِرف اس بِنا پر زیادہ کیوں ہے کہ آپ مُجھ سے عُمر میں بڑے ہیں۔اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آج تک جتنی بھی بھیانک جنگیں رونما ہوئیں وہ سب آپ بڑوں کے فیصلوں کا ہی نتیجہ تھیں۔
اگرچہ مُجھے اس نصاب سازی کے عمل سے دُور رکھا گیا لیکن مُجھے پُورا حق ہے کہ میں اپنی آواز بُلند کروں کہ میں بھی وجود رکھتا ہوں۔ اور میری آواز اس کا ثبوت ہے۔ میرے کُچھ مطالبات ہیں جو آپ کے گوش گُزار کرنا چاہتا ہوں۔ مُجھے ایسا تعلیمی ماحول چاہیے جو مُجھ میں سوال کرنے کی حوصلہ افضائی پیدا کرے نا کہ مُجھے سوال کرنے پرتضحیق یا تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ مُجھے ایسا نصاب چاہیے، جو عمل کو ترجیح دے جو میرے معلوم کی آئینہ داری کرے۔ جو مُجھ میں دوسروں کا احساس پیدا کرے۔میں کٹتے ہوئے درختوں کی تکلیف محسوس کرتا ہوں میں اُن کے کٹاو کو روکنا چاہتا ہوں۔ میری بہت ساری فیلو مخلوقات معدوم ہو چُکی ہیں اور کُچھ معدومیت کے دھانے پر ہیں میں اُنہیں بچانا چاہتا ہوں۔ میرے بہت سارے ساتھی کُچھ مالی یا گھریلو وجوہات کی بِنا پرسکول میں نہیں آ پاتے میں اُن سب کو اپنے ساتھ سکول میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ کُچھ ہی دن ہو ئے سکول دوبارہ کُھلے ہیں اور میرے بہت سارے ساتھی سکول واپس نہیں آنا چاہتے تھے کیونکہ سکول کبھی بھی پُر کشش نہیں رہا۔ میرے زیادہ تر دوست سکول آنے سے خوف زدہ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ سکول نے ہم سے کبھی نہیں پوچھا کے ہم کس چیزمیں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر کبھی پوچھا بھی تو اُسے سنجیدگی سے نہ لیا گیا۔ میں آپ کو یہ دعوت دیتا ہوں کے آپ اس رویے کی نظرثانی کریں۔
میں ایسا نصاب پڑھنا چاہتا ہوں جو مُجھے سوالوں کےایک دُرست جواب رٹنے کی بجائے اُپج اِمکانات کا مُتلاشی بنائے۔ جو مُجھے سوچنے کا مُشاق بنائے، نئی جہتوں کی راہ دِکھائے۔ مُجھے مُستقبل میں درپیش آنے والے چلینجز کونئے انداز میں حل کرنے کے قابل بنائے۔ ایسا نصاب جو مُجھے زمانے میں ہونے والے ظُلم کے خِلاف آواز بُلند کرنا سِکھائے نہ کے دبانا اور خاموشی اِختیا ر کر جانے کو کہے۔ میرے تعلیمی اِدارے خواجہ سراوں کو دیکھ کر دروازے بند نہ کریں بلکہ خندہ پیشانی سے استقبال کریں۔ ایسا نصاب میرا حق ہے جو مُجھے جانبدار تاریخ نہ پڑھائے بلکہ غیرجانبدار زاویہء نظر پیش کرے تاکہ میں خُود اپنی سوچنے کی صلاحیت سے اس کا تحقیقی جائزہ لے کر رائے قائم کر سکوں۔ ایسا نصاب جو مُجھے اچھا پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالمی شہری بھی بنائے۔ ایسا نصاب جو مُجھے برداشت کی بجائے بقائے باہمی سِکھائے نہ صرف کے اِنسانوں کے ساتھ بلکہ نباتات و حیوانات کے ساتھ بھی صِلاء رحمی سے پیش آنا سِکھائے۔ اُمید کرتا ہوں میری اِن گُزارشات کو خاطر میں لایا جائے گا۔
واسلام
عِلم و عمل کا طالب۔