ابرار احمد کی شاعری خیال حُسن میں حُسن عمل کا سا خیال ہے۔ ایک ایسی چتر کاری جو شاعر کو ان دیکھے اور ان جانے زمانوں سے ہم کلام ہونے کا موقع فراہم کر تی ہے۔ بلاشبہ وہ مجھے ایک شاعر سے زیادہ ایک ’مصور‘ دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے قلم سے وہ ایک رنگ محل بناتے ہیں اور اس کے رنگین دروازوں سے گزارتے ہوئے کچھ کرداروں سے ملواتے ہیں۔ منور دروبام اور طاقچوں کی اوٹ سے جھانکتی مجسم تصویریں ان کی شاعری کا حاصل ہیں۔میں محض ایک قاری ہوں۔ اور اردو زبان کی تہہ در تہہ کروٹوں سے آشنائی حاصل کرنے والا ایک طالب علم ہوں۔
ابرار احمد کی شاعری میرے دل میں اترتی ہے تو میں اس کا راوی بن جاتا ہو ں۔ میں اپنے آس پاس موجود دوستوں سے کہتا ہوں کہ ’سنوابرار احمد نے کیا کہا ہے‘
واقعہ کچھ یو ں ہے کہ میں نے محترم ظفر اقبال کے کالم ”دال دلیہ“ میں ابرار احمد کی نظم ”میں نے بہت سا وقت ضائع کر دیا“ پڑھی تو مجھے لگا کہ یہ میری زندگی کا فسانہ ہے۔
میں نے بہت سا وقت ضائع کر دیا
اُس کے ہونٹو ں پر پھول کھلانے
اور اسے ملنے کے لیے
وقت نکالنے میں
میں نے بہت سا وقت ضائع کر دیا
ایک گیت کو ڈھونڈنے اور گنگنانے میں
اپنے قدموں سے
ایک راستے کو جدا کرکے
کسی اور طرف نکل جانے میں
اپنے لہو میں ایک آگ کو سرد کرنے
ایک خواب کی پکڑ سے نکلنے
اور بے اماں دنوں کے ساتھ
قدم ملا کر چلنے میں
دل اور دنیا کے درمیان
ایک پل بنانے
اور اس پر سے گزرنے کی اذیت میں
جوتے چمکانے اور اپنا میلا لباس تبدیل کرنے میں
دوڑ کی ابتدائی لکیر تک آنے
چلتی گاڑی کے آخری ڈبے تک
پہنچنے کی کوشش آغاز کر نے میں
میں نے بہت سا وقت ضائع کر دیا
اپنی مٹی سے دُور
ایک گھر کی اینٹیں اکھٹی کرنے
اور دوسروں کے درمیاں
جگہ بنانے میں
اسے دیکھنے
اور دیکھ کر گزر جانے میں
حال آں کہ
اتنے وقت میں...بہت سے
باغ لگائے جاسکتے تھے
بہت سی دھوپ جمع کی جاسکتی تھی
اور
کہیں بھی پہنچا جاسکتا تھا
افسوس...
تاسف کے دھویں سے
میرا دم گھٹنے لگا ہے
اور جلتے مکان سے
شاید تم بھی
مجھے باہر نہیں نکال سکتے۔
شاعر کی تخلیق میرے ہاتھ میں تھی اور میں اس کے خالق کی تلاش میں چل نکلا۔ڈھونڈنے سے تو اس کائنات کا خالق خدابھی مل جاتا ہے۔ ابرار احمد بھی کسی طور مل گئے اور ان کی کتاب ” موہوم کی مہک“ بھی مل گئی۔
موہوم کی مہک کیا ہوتی ہے؟دانش مند دوستوں سے استفسار کیا مگر کچھ تو یوں مسکرائے اور کسمسائے جو حُسن کی چکاچوند سے متاثر تو ہوتے ہیں مگر اس کو بیان کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
نظمیں پڑھیں تو ” موہوم کی مہک“ آشکار ہوئی۔ ابرار احمد کی نظمیں مونالیزائی مسکراہٹ ہیں۔ روایت و جدت کی دنیا سے پرے کسی گم شدہ سیارے کی مانند ہیں۔وہ خیال و خواب یا وہم و گمان کی تفریق میں نہیں الجھتے۔نظریے کی بازگشت سے متاثر نہیں ہوتے۔ ایک ایسی نظم سناتے ہیں جو ہماری سماعتوں کو متاثر کر تی ہے اور دل میں بسیر ا کر تی ہے۔
میں نے ہمیشہ نظم کو گیت کے قریب جانا ہے۔ گیت اور نظم کا پیراہن ایک جیسا ہے۔ موسیقیت،لے اور تال کا آہنگ....متکلم سرگوشی اور جھرنوں کی خاموشی ایک عمدہ نظم یا گیت ہے۔ ابرار احمد کی نظمیں جن مصرعوں سے ترتیب پاتی ہیں ان میں بے ساختگی تو ہے ایک نغمگی بھی موجود ہے۔ میں انہیں کسی بھی ساز پر سنا سکتا ہوں۔
گھٹا ٹوپ تاریکی میں جب کو ئی روشنی کی کرن ہوید ا ہوتی ہے تو لفظوں کی بشارت ملتی ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ شاعری الہام ہے...مگر یہ ہُماہر کسی کے سر پر نہیں بیٹھا کر تا۔منتخب لوگوں کے دلوں میں ہی روشنی پھوٹتی ہے۔
ڈاکٹر ثاقب ندیم نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں لکھی جانے والی نظم جدید کو ”نظم گویا ہوئی“ کے زیر عنوان یک جا کیا ہے....اس تلاش میں کئی برس گزر گئے...اس نے کتنے ہی عشق کیے مگر کام خوب کیا اور تلاش کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ثاقب ندیم خود بھی نظم کا عمدہ شاعر ہے.....یہ ڈاکٹر حضرات دل کا علاج کرتے کرتے دل کے معاملات میں کیوں الجھ جاتے ہیں... ڈاکٹر حسین عابد،ڈاکٹر جاوید انور(مرحوم)...ڈاکٹر ثاقب ندیم اور ڈاکٹر ابرار احمد.... اول اول شاعر ہیں....اور ان کا ڈاکٹر ہونا ثانوی حیثیت ہے۔ ابرار احمد کی نظموں کی پہلی کتاب ”آخری دن سے پہلے“(1997۱)۔”غفلت کے برابر“(نظمیں)2007
زیر اشاعت...تاثرات (تنقید)۔روسی نظمیں (تراجم)۔Different Strokes (انگریزی اخباری کالم)ہیں
شاید میں کچھ بھٹک گیا ہوں کیوں کہ میں کوئی سکہ بند نقاد نہیں ہوں ورنہ اب تک قصہ تمام ہوچکا ہوتا،” موہوم کی مہک“ ایک زنبیل ہے، زادِ راہ ہے۔کسی کٹھن سفر میں امید کا نام ہے۔ ان کی شاعری کسی گم گشتہ خواب کی مانند اپنی تعبیر تلاش کرتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے۔ ہم اس تعبیر سے کیا کچھ اخذ کر سکتے ہیں۔ یہ آنے والے زمانے بتائیں گے۔ یہاں مجھے ان کی نظم ”سارہ کی پوٹلی“ کا ذکر کر نا ہے جو مجھے اور میرے دوست عون علی کو بہت پسند ہے۔عون علی شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہے اور میں عبدالحفیظ ظفر کی طرح مجرد ہوں۔ تاہم بچوں سے محبت اور شفقت کے لیے شادی شدہ ہونا شرط نہیں ہے
”سارہ کی پوٹلی“ ایک باپ کا اپنی کم سن بیٹی سے مکالمہ ہے۔ وہ بیٹی جس کی سالگرہ دھوم دھام اور فرمائشوں کی تعمیل کے ساتھ منائی جاتی ہے۔اور باپ آنے والے دنوں میں سارہ کے بارے میں سوچتا ہے۔نظم کچھ یو ں ہے۔
سارہ کی پوٹل
سارہ ہنستی بال بناتی
میک اپ کرتی ہے
چھوٹے چھوٹے پیروں میں پمپی پہنے
ادھر ادھر لہراتی ہے
گرتی اٹھتی بھاگتی ہے
اپنے اجلے پن پر
اپنے ہونے پر
اِتراتی ہے
ہر پہلی کو سالگرہ کا کیک منگا کر
جھومتی ناچتی مشروبات اڑاتی
شور مچاتی ہے
اپنے اچھے پیار ے بھائیوں سے لڑتی ہے
رعب جماتی ہے
اور کہیں جاتی ہے تو
اک پوٹلی میں
اپنی پیاری ہنسی کھلونے
باربی ڈول اور سرخی پاؤڈر
کنگھی اور فراک کے ساتھ
مجھے بھی ٹھونس کے لے جاتی ہے
اب وہ تھوری سیانی ہے
سب کچھ جاننے کی خواہش میں
سنجیدہ سی رہتی ہے
سمجھتی ہے سمجھاتی ہے
دُور کی کو ڑی لاتی ہے
کھلتی ہے مسکاتی ہے
فالتو خرچ پر کڑھتی اور ڈانٹ پلاتی ہے
میرے تھکے ہوئے سر کو سہلاتی ہے
زندہ رہنے پر اکساتی ہے
وہ خوشبو ہے محبت کی
سارے میں پھیل جاتی ہے
سینے کے بے پایاں پن میں
ہنسی کی گونج ہے
چاہت ہے خالی دنیا کی خاموشی میں
نغمہ جاں ہے
زندگی بھری محبت کی کومل دھڑکن ہے
جب اک روز
میں اس سے دور چلا جاؤں گا
اس کے دل میں آنسو
روشن آنکھوں میں
کسی ستارے کی صورت چمکوں گا
سب سے چھپ کر
وہ گرہوں میں الجھی پوٹلی کھولے گی
اپنے کھوئے ہو ئے بچپن کو
میری محبت اور پاگل پن کو ٹٹولے گی
دیر تلک اور دور تلک........
ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائے گی
جانے کیا کیا سوچے گی
”ابھی ابھی تو یہیں کہیں تھے
اس گدڑی اس دل کے اندر
ڈول کی نیلی آنکھوں میں ان کی پر چھائیں پڑتی ہیں
دیواروں سے
ابھی تو ان کی باتوں کی آواز سنائی دیتی ہے
ابھی تو ان کی باس آتی ہے
یہاں وہاں سے
میں نے خود اپنی سانسوں سے گرہ لگا کر رکھا تھا
ہوا اڑا کے لے گئی ان کو
یا پھر مجھ سے چھپے ہوئے ہیں
کوئی بتاؤ....کہاں پہ ڈھونڈوں
جانے کدھر نکل گئے ہیں“
اس عہد کے سب سے بڑے شاعر ظفر اقبال ابرار احمد کے بارے میں کہتے ہیں
”میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ ابرار احمد ایسی زبردست نظمیں
کیسے لکھ لیتا ہے۔ اس کی نظم اپنے سارے حُسن کے ساتھ
آپ پر حملہ آور ہوتی ہے اور آپ بچ کر کہیں نہیں جا سکتے“
مجھے اس سرسری سی رائے پر اعتراض ہے....بات یہ ہے محترم اچھی شاعری کبھی حملہ آور نہیں ہوتی ہے بلکہ دل میں اترتی ہے...نغمہ جاں بنتی ہے، ابرار احمد کی نظمیں آپ کے حواس پر چھا جاتی ہیں....ظفر اقبال صاحب نے تو یہ تہیہ کر لیا کہ ” موہوم کی مہک“ تمام کی تمام اپنے کالم میں شائع کر دیں گے...مگر مجھے ان کی نئی نظموں کا انتظار ہے...ایک اور نظم جس میں کچھ مزاخمتی رنگ ہے
معاف کیجئے خان صاحب
جانے کن راہ گزاروں سے
دوڑے چلے آتے ہیں
لاشیں بھنبھوڑتے،بُو سونگھتے
بیٹھ گئے ہیں لو گ
کہ بیٹھے ہوؤں کو کاٹتے نہیں
ویرانی کے عقب میں
راستوں اور شاہراہوں کے کہرام
اور جلتی بجھتی روشنیوں کے
تعاقب میں
پھٹے ہو ئے حلق کے ساتھ
گاڑیوں کے ساتھ ساتھ
بھاگتے ہیں
دیوار پر
ٹانگ اٹھا چکنے کے بعد
معاف کیجئے گا خان صاحب
ُآپ کا الاپ
کانوں میں جم گیا ہے
مڑکیاں ٹوٹتی ہیں
ہم رخصت ہو رہے ہیں
جینے کے جواز سے دست بردار
پٹاخوں سے
پتلونیں بچاتے
پھدکتے پھرتے ہیں
ہماری قومی موسیقی
کافور کی مہک سے بھی خالی ہے
سڑانڈ ہے چہار جانب
اور بھونکنے کی آوازیں
بے سُر بے تال
جان کی امان پاؤں
تو سیدھا
آپ کی طرف آؤں