پاکستان میں پسند کی شادی کے لیے غیر مسلم ہی کیوں اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں؟

10:23 AM, 22 Oct, 2021

سیدہ ثناء رسول
پارلیمانی کمیٹی نے وزارت مذہبی امور کی مخالفت کی بنیاد پر جبری تبدیلیٴ مذہب کے خلاف بل کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ یہ قانون دین اسلام کے خلاف ہے مگر میرا ماننا ہے کہ اس بل کا تعلق کسی بھی عقیدے یا مذہب سے ہٹ کر رشتہ ازدواج یا پسند کی شادی سے ہے۔

سینٹر فار سوشل جسٹس پاکستان کی ایک فیکٹ شیٹ کے مطابق کراچی کی ضیاء کالونی کی رہائشی چودہ سالہ ہما یونس 10 اکتوبر 2019 کو اپنے گھر سے لاپتہ ہوگئی۔ ہما کے والد یونس نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا کہ ان کے پڑوس میں رہنے والے چوبیس سالہ ٹیکسی ڈرائیور عبدالجبار نے انکی بیٹی کو اغوا کیا تھا۔ جبکہ کیس فائل کے مطابق عبدالجبار اور ہما، جسکا نام تبدیل کر کے مہک رکھ دیا گیا تھا، نے شادی کرلی تھی جس کے بعد ہما نے اسلام قبول کیا۔
بہاولپور کے علاقہ منڈی یزمان میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا جہاں ایک 15 سالہ ہندو لڑکی بھمبو مائی نے 13 مارچ 2020 کو ایک ساتھی دیہاتی منیر احمد سے شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کرلیا۔
18 فروری 2020 کو جیکب آباد میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جہاں علی رضا سولنگی نامی لڑکے نے ایک نابالغ ہندو لڑکی ماہک کماری، جسکا نام تبدیل کر کے علیزہ رکھ دیا گیا، سے اسلام قبول کرانے کے بعد شادی کی تھی۔
جبکہ جبری تبدیلی مذہب کے بہت سے مستند واقعات بھی موجود ہیں، زیادہ تر واقعات میں نوجوان لڑکیاں یا لڑکے اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کرتے ہیں۔

اس ساری بحث میں اسلام قبول کرنے والے کی عمر کو خاص طور پر موضوع بنایا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر کم عمر کے لڑکے یا لڑکیاں ہی اسلام قبول کرتے ہوئے پائے گئے ہیں مگر ایک اندازے کے مطابق 18 سال عمر میں بھی کوئی شخص اتنا میچور نہیں ہوتا کہ کسی بھی مذہب سے متعلق رائے قائم کرسکے یا کسی اور مذہب کے لیے اپنا مذہب چھوڑنے کا فیصلہ کرسکے۔

عام خیال کے مطابق، اس عمر کے لوگ زیادہ تر رومانوی تعلقات میں کسی بھی چیز سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں لہٰذا زیادہ تر واقعات پسند کی شادی کے ہوتے ہیں نہ کہ مذہبی تبدیلی کے۔

سینٹر فار سوشل جسٹس پاکستان کی فیکٹ شیٹ کے مطابق جبری تبدیلی مذہب کے متاثرین میں سے 46.3 فیصد سے زائد افراد کمسن تھے جبکہ 32.7 فیصد کی عمر 11 سے 15 سال کے درمیان تھی، متاثرین میں سے 16.67 فیصد افراد 18 سال سے زیادہ عمر کے تھے جبکہ رپورٹ میں 37 فیصد سے زائد متاثرین کی صحیح عمر کا ذکر نہیں کیا گیا۔

ایک اور مشاہدے کے مطابق پاکستان میں بین المذہب پسند کی شادی کے تقریباً تمام واقعات میں ہمیشہ غیر مسلم ہی اسلام قبول کرتا ہے نہ کہ مسلمان دوسرے مذہب کو قبول کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ اسٹیٹس بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بہت سے واقعات میں غیر مسلم لڑکیاں یہ بتاتے ہوئے پائی گئی ہیں کہ انہوں نے اسلام اس لیے قبول کیا کیونکہ وہ اپنی مسلمان سہیلیوں جیسا سوشل اسٹیٹس چاہتی تھیں۔

بہت سے انسانی حقوق کے کارکنان اور اقلیتی ہندو نمائندوں نے تسلیم کیا ہے کہ تبدیلیِ مذہب کا کوئی بھی واقعہ بندوق کی نوک پر یا جسمانی طاقت کے استعمال کے ذریعے پیش نہیں آیا۔ اس سے یہ واضح ہے کہ آج تک جبری تبدیلی مذہب کا کوئی بھی معاملہ قانونی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا۔

کچھ پاکستانی ہندووٴں کا ماننا ہے کہ تبدیلیِ مذہب ہی ان کے لیے امتیازی سلوک اور غربت سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ہندو بانڈڈ لیبر کا شکار ہیں۔ وہ اس دنیا میں اپنے والدین کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے آتے ہیں اور ساری زندگی اسی بوجھ تلے گزار دیتے ہیں۔ ان کا مقدر زمینداروں کے لیے کام کرنا ہے۔ ایسے میں اسلام قبول کر کے بہتر زندگی گزارنے کا موقع ان کے لیے کسی نعمت سے کم ثابت نہیں ہوتا۔

بہت سے ہندو نمائندوں کے مطابق ہندو ذات پات کا نظام بھی اس معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، ہندو ذات پات کا نظام امتیازی سلوک کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے نچلے طبقے کے ہندووٴں کو روزگار اور شریک حیات تلاش کرنے میں جدوجہد کا سامنا رہتا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان تمام سیاسی مقاصد کو ایک طرف رکھ دے اور جبری مذہب تبدیلی کی نہ صرف سرکاری تعریف جاری کرے بلکہ مذہب تبدیل کرنے کے لیے عمر کی حد اور مناسب قواعدوضوابط متعارف کرائے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو سماجی، معاشی اور مذہبی طور پر مساوی حقوق فراہم کیے جائیں تاکہ اگلی بار جب ہم مذہبی تبدیلی کا کوئی واقعہ سنیں تو وہ سماجی یا معاشی حیثیت کی خاطر یا محبت کے نام پر نہ ہو بلکہ حقیقی طور پر کسی بھی مذہب سے متاثر ہوکر کیا گیا ہو۔

مزیدخبریں