23 نومبر 2020 کو پہلی دفعہ سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کو RIGHT OF ACCESS TO INFO ACT 2017 کے تحت درخواست دی تھی۔
اس ایکٹ کے تحت حکومت پاکستان کے ادارے پابند ہیں کہ دس دن کے اندر انفارمیشن مہیا کریں۔ لیکن مطلوبہ انفارمیشن نہیں دی گئی۔
بعد میں پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل کے لئے گیا تو اس کا فیصلہ میرے حق میں ہوا۔ میں نے 3 بار درخواست دی اور تینوں بار کمیشن نے کیبنٹ ڈویژن کو خط لکھا مگر عمل درآمد نہیں ہوا۔
پھر میں نے مئی 2021 میں توہینِ عدالت کی پاکستان انفارمیشن کمیشن میں درخواست دی تھی جس پہ 8 جولائی 2021 کے لئے شوکاز نوٹس جاری ہوا تھا اور اس پر hearing بھی ہوئی تھی۔
سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کو سزا ہونے والی تھی تو تب اس وقت کی حکومت اٹارنی جنرل کے ذریعے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن لے کر چلی گئی۔ جب یہ معاملہ لے کر کورٹ گئے تو تب یہ میڈیا پر ہائی لائٹ ہو گیا تھا حلانکہ میں نے اس کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔
اس دوران مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جب شوکاز نوٹس جاری ہوا تو مجھے سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کی کال آئی جنہوں نے مجھے کہا کہ کسی بھی حال میں اس معاملے کو ختم کرواؤ۔ تم میرے چھوٹے بھائی ہو میں تمہیں آفر کرتا ہوں کہ جو بھی تم چاہتے ہو میں وہ کرنے کو تیار ہوں۔ آپ صرف مہربانی کر کے واپس لے لیں۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے آف دی ریکارڈ فائل کی کاپی دے دیں تو میں آن دی ریکارڈ واپس لے لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا تو میں نے بھی کہا کہ پھر میں بھی ایسا نہیں کر سکتا۔
پھر دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ گیا تو ایجنسیوں کے لوگوں نے میرے گھر جا کر میری 70 سالہ بوڑھی ماں کو دھمکی دی اور کہا کہ تیرے بیٹے کی لاش تمہارے گھر آئے گی۔ میں جہاں جاتا تھا تو ایک گاڑی پر لوگ میرا پیچھا کرتے تھے۔ میں اپنے تین دوستوں کے ساتھ سوات گیا تو وہاں پر PTI کے لوگوں نے مجھ پہ تشدد کیا جس کی FIR تک نہیں کاٹی گئی۔
میں راجن پور سے تعلق رکھتا ہوں آج تک مجھے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر میں مؤقف پر قائم رہا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعتیں ہوتی رہیں مگر اس معاملے کو جان بوجھ لٹکایا گیا۔ حالانکہ پہلی یا دوسری سماعت پر اپیل خارج ہو جانی چاہیے تھی۔ مگر ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں ہوا اور مجھے میری انفارمیشن نہیں مل سکی۔
میں نے پوچھا تھا کہ جو گفٹس عمران خان نے توشہ خانہ سے اپنے پاس رکھے ہیں ان کی تفصیلات بتائی جائیں تا کہ ہم معلوم کر سکیں کہ ان اشیا کی مارکیٹ ویلیو کیا ہے۔
قیمتیں طے کرنے میں بہت کم قیمت طے کی گئی ہے جو چیز لاکھ روپے کی ہے اس کو 10 یا 20 ہزار کا بتایا گیا ہے۔
میرا RTI کے اندر سب سے اہم سوال یہ تھا کہ جو پیمینٹ عمران نے کی ہے اس کی ٹرانزیکشن کون سے اکاؤنٹ سے ہوئی ہے۔ مجھے نہیں بتایا گیا مگر میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ وہ ٹرانزیکشن عمران کے اکاؤنٹ سے نہیں ہوئی۔
میرے سورس نے مجھے بتایا تھا کہ تحفے حاصل کرنے سے پہلے ہی فروخت کر دیے گئے تھے۔ جس کو گفٹس بیچے گئے تھے اسی کے اکاؤنٹ سے ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔ یہ کرپشن کا کیس بنتا ہے اور نیب کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ لیکن اس کی مجھے آج تک انفارمیشن نہیں دی گئی۔
مجھے میرے ذرائع نے قابلِ اعتبار خبر دی تھی کہ عمران نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔ وہ وزیر اعظم تھے اس لئے میں نے RTI کو استعمال کیا کہ تاکہ مجھے مستند اطلاع مل سکے۔
PTI نے دو جگہ سے میری نوکری ختم کروائی۔ فواد نے بطور انفارمیشن منسٹر کال کر کے میری جاب ختم کروائی۔ اس کے بعد میں نے ایک ٹی وی چینل کو جائن کیا تو تین دن بعد میرے CO نے مجھ بلا کر معذرت کی کہ میں آپ کو افورڈ نہیں کر سکتا۔
میں جہاں بھی جاتا تھا PTI کے لوگ مجھے فالو کرتے تھے۔ وہ اب بھی بہت طاقتور ہیں اس لئے انہوں نے مجھے کہیں بھی کام نہیں کرنے دیا۔
میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کے کمشنر زاہد عبداللہ کو داد دوں گا جنہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا حالانکہ ان کو سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن نے دھمکی دی تھی کہ فیڈرل حکومت سے بڑا کوئی بدمعاش نہیں ہے آپ اس کیس کے بہت پیچھے لگے ہیں، آپ کے ساتھ کچھ برا بھی ہو سکتا ہے۔
رانا ابرار کی اس گفتگو نے نئے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ عمران خان جو آج کل دعوے کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں کسی صحافی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی، انہیں ایسی ہی اطلاعات کی بنیاد پر RSF نے 2021 میں آزادئ اظہار کا دشمن قرار دیا تھا۔ دوسرا سوال کم قیمت طے کرنے کا ہے جو خود ایک تفصیلی تحقیقات کا متقاضی ہے۔