لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفریس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ادارے میں اچھے اور برے دونوں افراد موجود ہوتے ہیں عوام کا حق ہے کہ ان کوجج کریں مگر ان کو جج کرتے وقت پورے ادارے کو تنقید کا نشانہ مت بنائیں۔
جسٹس عیسیٰ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ججوں کو ایک فرد کے طور پر جج کیا جائے اور ان کی مذمت کی جائے مگر سپریم کورٹ کی مذمت نہ کریں۔
"پاکستان کو عدلیہ، انتظامیہ اور فوج کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کے لئے ضروری ہے کہ ان سب اداروں کو عوام کے منتخب نمائندوں کے زیر سرپرستی چلایا جانا چاہیے۔"
سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج نے اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ تنقید کا خیر مقدم کیا ہے اور کبھی کسی کو توہین عدالت کا مرتکب نہیں ٹھہرایا مگر اداروں پر تنقید سے احتیاط برتی جائے کیوں کہ اداروں کے بغیر ملک بکھر جاتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سارے وزرائے اعظم اپنے عہدے سے ہٹا دیے گئے یا ان کو مار دیا گیا جن میں لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں۔ اس لئے اداروں میں عوام کا کردار بہت ضروری ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ سٹیزن مونیٹر آف ڈیموکریسی اینڈ کانسٹیٹیوشن (سی ایم ڈی سی) کے نام سے ایک فورم ہونا چاہیے جس کے ذریعے سے عوام کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ ان کی کارکردگی کو مونیٹر کر سکیں جن کو وہ تنخواہ دیتے ہیں۔
اس پہ مزید روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سی ایم ڈی سی میں بلیک اور وائٹ لسٹ ہونی چاہیے جس میں کارکردگی کے حساب سے اندراج ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور ایک جج کے نہیں بلکہ قانون، سیاست اور تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے سے جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کو بلیک لسٹ میں شامل کرتے ہیں۔ وائٹ لسٹ میں ان کے مطابق جسٹس کانسٹنٹین، جسٹس اچل اور جسٹس محمد بخش کو شامل ہونا چاہیے۔
جنرل ایوب خان، جنرل ضیاءالق اور جنرل پرویز مشرف کو بلیک لسٹ میں شامل کرنا چاہیے۔ وائٹ لسٹ میں دو غیرملکی انگریزوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جن میں پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل میسروی اور دوسرے آرمی چیف جنرل گریسی شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلام کے شاندار ماضی سے مشہور شخصیات کے حوالے بھی دیے۔ ججز کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ نے پریشر میں آ کرملک کو بیچ دیا تو تاریخ ہمیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔