میاں! یاد رکھو محبت کی کشتی میں اگر شکوے شکایات کے چپو نہ ہوں تو خوشامد اور بزدلی کی لہریں کشتی کو سمندر برد کر دیتی ہیں۔ وہ محب ہی کیا جو محبوب کی صرف اچھائیاں دیکھے اور اسکی بری باتوں سے یوں غافل ہو جائے جیسے آسمان اہل درد سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ محبوب تک پیغام پہنچانے کا ذریعہ پہلے قاصد تھے اب موبائل کے ایک کلک نے براہ راست محبوبہ تک رسائی دے دی ہے۔
"محبت" کو "صحافت" سے جوڑنے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری حکومت کی حیثیت "محبوبہ" کی سی ہوتی ہے۔ اور عوام "محب" کا کردار ادا کرتی ہے۔ "صحافت" وہ "پل" ہے جو محب اور محبوب کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ محبوب کو کیسے پتہ چلے گا کہ میرا محب مہنگائی، غربت اور معاشی مسائل سے دو چار ہے۔ اس پل پر اگر قدغن لگائی جائے یا پھر محب کو محبوب کی اچھی اچھی باتیں کہی جائیں جب کہ محب درد سے دوچار ہو تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ عوام اور بادشاہ کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور محب محبوبہ سے بدظن ہو کر کسی اور کو محبوبیت کے درجے پر فائز کرنے لگ گیا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ درد کی دوا ایک اور درد ہی ہوتی ہے۔
وطن عزیز کا موجودہ صاحب مسند جس نے عوامی مسائل کو اپوزیشن کے وقت بیباکی سے بیان کیا تھا۔ وہ صرف راہبر کی حیثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ اس سے بھی بہت پہلے عوامی سطح پر مقبولیت کے درجے پر پہنچ چکا تھا۔ میڈیا سے لے کر عوام تک اس کو ہر سطح پر پذیرائی ملی تھی۔ وہ روایتی سیاستدان نہیں ہے جو صرف فصلی بٹیروں جیسا رویہ رکھتے ہیں۔ اسے خبروں کی زینت بنے رہنا اور اپنی تعریف سننا جس کا وہ عادی ہے بہت پسند ہے۔ اسکی مثال تاجک کاروباری اشخاص کی محفل میں ہم سب نے ملاحظہ کی۔ جب تک وہ تاجر تعریفی کلمات ادا کرتا رہا صاحب صدر اور مشیر صدر داد دیتے رہے۔ جب اس نے کہا کہ؛ "آپ جب اپوزیشن میں تھے آپ زبردست تھے۔ اب پتہ نہیں کن چکروں میں آگئے ہیں اور ساتھ ہی"ایک مشہور شاعر کا برجستہ مصرعہ"ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو" کس دیا تو اعلیٰ حضرت کی جبیں شکن سے بھیگی جس کے چھینٹے پی ٹی وی پر پڑے۔ پی ٹی وی کا اسپیکر گیلا ہوا اور اس کی آواز ساتھ چھوڑ گئی۔ میر مجلس نے بھی ہمیشہ اکتائے ہوئے رہنے کے مصداق اسے بزنس میٹنگ کہہ کر مشاعرہ بند کرانے کی بھونڈی کوشش کی۔
جب وہ وزیراعظم بنا تو جو وعدے اور انصاف کا علم وہ بلند کر چکا تھا اس پر صرف بات کرنے کے علاوہ عملی طور پر ان وعدوں کو پورا کرنے اور انصاف کو فراہم کرنے میں بہت حد تک ناکامیاب ہوا تو ذرا سی تنقید سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ ایسا قانون فطرت ہے جسے مقبول ہونا پسند ہو وہ ایک دم اگر "فضول" ہونے لگ جائے تو غصہ آنا ایک فطری عمل ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم کی کرسی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ صاحب کرسی عوامی ترجمانی کرنے سے قاصر نظر آئے اور عوام افلاس سے مجبور ہو کر اسے چپ چاپ برداشت کرلے۔ برداشت وہ اس لئے پچھلے پچھتر سالوں سے کر رہی ہے کہ اس نے ووٹ کا حق اپنے پاس رکھا ہے۔ جسے وہ پانچ سال کی مدت کے بعد استعمال کر کے شخصیات کی قسمت کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ ایسے میں منتخب حکومت کا پریشان ہونا بنتا ہے کیو نکہ الیکشن ہونے میں کتنا وقت رہ گیا ہے؟ اس لئے پی ایم ڈی اے کے ذریعے وہ اپنا تحفظ کرنا چاہتی ہے۔
میں نے عرض کیا جناب جمہوری حکومت اگر ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر کوئی قانون بنائے تو اس کی پاسداری تو بہر حال صحافی کے ساتھ ساتھ عوام کو کرنی پڑے گی۔ آخر کو عوامی نمائندگی کا اسے حق حاصل ہے۔ انھوں نے ایک طنزیہ نگاہ مجھ پر ڈالی اور گویا ہوئے کہ؛
حسرت موہانی صحافت کے جد امجد میں سے ہیں انکا قول ہے کہ
"یقین یا عقیدہ ایسی چیز ہے جسے کسی مصلحت یا خوف سے ترک کر دینا اخلاقی گناہوں میں بد ترین گناہ ہے اور جس کے ارتکاب کا کسی آزاد خیال اخبار نویس کے دل میں خیال تک نہیں آنا چاہئے"۔
اگر حکومت کو عوامی نمائندگی کا حق حاصل ہے تو صحافی کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے۔ جسے بہر حال کسی بھی صورت نہیں چھوڑا جا سکتا۔ صحافت صرف ایک شعبہ نہیں نہ ہی کوئی پیشہ ہے بلکہ یہ ایک عقیدہ ہے جس سے روگردانی کسی بھی صورت، صورت تذلیل سے کم نہیں۔ یوں تو صحافت پر قدغن لگانے کی وطن عزیز میں ایک تاریخ ہے لیکن اگر موجودہ صدی کی بات کی جائے تو آج سے چودہ برس قبل ایک آمر نے چند صحافیوں اور عدلیہ سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ آزادئی اظہار کو روکنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنا دشمن بنا بیٹھا تھا۔ نتیجہ اسکی تمام تر طاقت کے برعکس نکلا اور اس کے طاقت کے غبارے سے ہوا یوں نکلی کہ اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
موجودہ حکام نے بھی اسی روش کو اپنانے کو شش کی ہے۔ ملک کے ہر ادارے کو اپنے تسلط میں لانے کی یہ کاوش بہر حال اس کے حق میں بہتر نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی وجہ تو عوام پر مہنگائی کا وہ بم ہے جس نے عوام میں اس کی پارٹی کو کسی حد تک غیر مقبول بنا دیا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کا الیکشن اس کی واضح مثال ہے۔ دوسری وجہ الیکشن کمیشن سے جھگڑا ہے۔ حکومت اپنے ایک وزیر کے بیان سے الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنا چکی ہے۔ بات یہاں تک نہیں بلکہ اس ادارے کو آگ لگانے کی بات بھی کر چکی ہے۔ عدلیہ پر بھی اس نے طاقت کے پنجوں سے وار کرنا چاہا ہے۔ ایسے میں میڈیا کنٹرول کرنے کی احمقانہ تجویز سے تمام سول سوسائٹی، میڈیا، صحافتی تنظیموں کے علاوہ بار کونسل کو بھی اس حکومت نے اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ بات یہاں تک ہوتی تو قرار آ جاتا تقسیم شدہ اپوزیشن بھی اس احتجاج میں حکومت کے خلاف کمر کس کر میدان میں آگئی ہے۔ جس کا مظاہرہ کچھ روز قبل میڈیا احتجاج کے دوران اپوزیشن لیڈر کی آمد اور دوسری جماعتوں کے سربراہان کی صورت ہم نے دیکھا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت ایسی پالیسی بنائے گی تو ملک گیر احتجاج اس کا مقدر بن جائیں گے۔ "روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے" جیسے نغمے کی صورت ہر گلی کوچے سے یہ صدا ابھرے گی کہ "روک سکو تو روک لو آزادئ اظہار کے علمبردار آئے رے"۔ ایسے میں اگر تحریک انصاف کی حکومت مرکز میں اس نعرے سے آسکتی ہے تو سوچو مؤخر الذکر نعرہ کیا رنگ لائے گا۔
دانشور صاحب نے جو نقشہ ملک گیر احتاج کا کھینچا اس پر میری دھڑکنیں اچانک بڑھ گئیں اور میں نے وزیر اعظم کے دفاع میں جلدی سے کہا کہ حضرت حکومت نے تو اب اس پی ایم ڈی اے کے بل پر ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس میں کچھ صحافی تنظیموں کے ساتھ ساتھ وزارت اطلاعات کے ارکان بھی ہیں اب تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے۔
دانشور صاحب نے کہا؛ " حکومت اگر عوامی بیساکھیوں پر ٹکی ہو تو اسے عوامی رہنا چاہئے اسے کسی بھی حال میں آزادئ اظہار کو نہیں کچلنا چاہئے کیونکہ عوام اور حکومت کے درمیان تعلقات کا جائزہ بہر حال میڈیا سے ہی لگنا ہے۔ ایسے میں ریاست کے چوتھے بڑے ستون کو دیوار میں چنوانا کسی دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے۔ کسی ذی شعور سے ایسی توقع رکھنا جہالت سے کم نہیں"۔