نجی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے خدشات ظاہر کئے کہ ملک میں موجود لاکھوں چینی باشندوں کی صحت سے جڑے مسائل کے حل کیلئے پاکستان کے پاس وسائل کا فقدان ہے، اس لئے پاک چین تعاون بڑھانا بہت ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ صرف چار سال کے عرصے میں پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کی تعداد 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ان کی صحت کا خیال رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ چین کی بائیو ٹیکنالوجیکل کمپنیوں، طبی جامعات اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کیساتھ تعاون اور اشتراک کو بڑھایا جائے۔
ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا کہ ہمیں اس سلسلے میں روایتی اور جدید نظام پر مبنی سہولیات کی ضرورت ہو گی، جنھیں پاکستان اور چین کی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹس کے اشتراک کو بڑھا کر ہی پوری کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی ماہرین کو قدیم زمانے سے رائج چینی ادویات کی بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
وائس چانسلر ہیلتھ سروسز اکیڈمی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی باشندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہم مختلف چائنیز اداروں کیساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے تحت پاکستان اور چین کے ماہرین مل کر جوائنٹ ہیلتھ ریسرچ پراجیکٹس، روایتی ادویات، میڈیکل ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ہیلتھ پراجیکٹس پر کام کریں گے۔