پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کونسل کے ہنگامی اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے ایک دیانت دار، اصول پسند اور قابل جج ہیں جنہوں نے ہمیشہ بغیر کسی خوف کے فیصلہ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صادق و امین شیخ رشید، اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تاریخی اختلافی نوٹ
یاد رہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حالیہ مہم کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے فیض آباد دھرنے کے فیصلے میں فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ اپنے ان اہل کاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔
وفاقی حکومت سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ وہ نفرت، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والے عناصر کی نگرانی کریں اور ذمہ دار افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔
قریباً تین ہفتوں تک جاری رہنے والے دھرنے کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، عدالت نے اپنے فیصلے میں کئی دیگر حکومتی محکموں کے بارے میں بھی منفی ریمارکس دیے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پنجاب بار کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ قرارداد میں یہ کہا گیا تھا کہ نومبر 2017ء میں تحریک لبیک پاکستان کے فیص آباد دھرنے سے متعلق کیس کے فیصلے میں مبینہ طور پر مسلح فورسز کی توہین کی گئی اور قانون کے بلند اصولوں کو مسخ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا نے فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلہ سیلف سینسرشپ کے باعث نظر انداز کیا
تاہم، اتوار کے روز وکلا کی چار مختلف تنظیموں کی مشترکہ قرارداد میں پنجاب بار کونسل کی قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین حافظ محمد ادریس شیخ کی قیادت میں ہوا جنہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر ہونے والی تنقید کو بلاجواز قرار دیا۔
پاکستان بار کونسل نے اپنی قرار داد میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی وکلا برادری اداروں کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف کسی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی۔ اس قرارداد کو وکلا کی مختلف تنظیموں کی جانب سے سراہا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ روشنی کی ایک نئی کرن ہے
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی متعدد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں جن میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، الیکشن کمیشن آف پاکستان، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، اعجازالحق اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواستیں شامل ہیں۔