فون بند کرنے سے قبل اس نے کہا تھا کہ ’مجھے نہیں پتا کیا ہورہا ہے میں اپنے آپ کو واپس گھر نہیں لاسکتا‘ اور یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد اس نے مجھے فون نہیں کیا وہ کبھی ڈیرہ اسماعیل خان یا جنوبی وزیرستان نہیں لوٹا، سچ بتاؤں آپ کو تو میں غصے میں تھی لیکن مجھے اس وقت نہیں پتا چل سکا کہ راؤ انوار اسے مجھ سے چھین چکا تھا۔
میں تعلیم یافتہ خاتون ہوں، نہ ہی کبھی کراچی گئی ہوں
اہلیہ نقیب محسود نے کہا کہ ایک یوٹیوب ویڈیو جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میں کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے ایک اسکول میں پڑھاتی ہوں، اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ ’میں تعلیم یافتہ خاتون ہوں، نہ ہی کبھی کراچی گئی ہوں، جب سے شادی ہوئی ہے میں اپنے گھر میں سسرال والوں کے ساتھ رہتی ہوں اس کے علاوہ میں کہاں گئی ہوں گی؟
'اہلیہ نقیب محسود کا مزید کہنا تھا کہ میں نقیب کیساتھ خوش تھی اور جیسے بھی ہوسکے اس کا اور اس کی چیزوں کا خیال رکھتی تھی جس کے لیے وہ میری ہمیشہ اپنے دوستوں کے سامنے تعریف کیا کرتا تھا، نقیب اللہ کو دلکش دِکھنے اور پھر تیار ہونے کے بعد اپنی تصاویر لے کر لطف اندوز ہونے کا شوق تھا، میں اکثر اسے چھیڑا کرتی تھی 'اور کتنی دیر لگاؤ گے تیار ہونے میں اتنی دیر سے تو دلہنیں بھی تیار نہیں ہوتیں‘، لیکن اس کے چاہنے والے بہت تھے جن کے بارے میں وہ مجھے اکثر بتایا کرتا تھا، ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں جن سے مجھے پریشانی ہوتی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی جانے کے بعد بھی نقیب مجھے نہیں بھولا ہم روز فون پر بات کرتے تھے، ہر دن وہ کہا کرتا تھا کہ وہ گھر جلدی لوٹے گا اور جب میں اپنے گھر ڈیرہ اسماعیل خان جاتی تھی تو وہ کہا کرتا تھا کہ میں جلد واپس آؤں گا پھر ہم ساتھ جنوبی وزیرستان جائیں گے، نقیب اللہ قتل ہونے سے قبل 4 ماہ سے کراچی میں مقیم تھا جو اپنی رہائش کی تلاش میں تھا، وہ اکثر کبھی اپنے انکل کے گھر یا کسی دوست کے گھر قیام کرتا تھا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے بہت دوست تھے اور وہ تعمیراتی جگہ پر کام کیا کرتا تھا، حالانکہ اس کے خواب بہت تھے لیکن اس میں سے ایک کراچی میں کپڑوں کی دکان کھولنا تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ میں ایک دکان کرائے پر لینا چاہتا ہوں اور وہاں خود سے کپڑوں کی رنگائی کا کام کروں گا، ایک بار کاروبار جم گیا تو وعدہ ہے کہ مجھے اور بچوں کو کراچی بلا لے گا۔
واضح رہے کہ نقیب اللہ کو 2018 میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا، نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی نعش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی، مبینہ پولیس مقابلے کے بعد سابق ایس ایس پی راﺅ انوار نے نقیب اللہ کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔ نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں پولیس مقابلے کے خلاف سول سوسائٹی نے آواز اٹھائی اور پولیس کے اقدام کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔سوشل میڈیا میں اٹھنے والی آوازوں کے نتیجے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نوٹس لیا، انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصوراوراس کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل کا نتیجہ قرار دیا۔
کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری 2018 کو را ﺅانوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے بھی راﺅ انوار کے قتل کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد راﺅانوار اپنی پولیس ٹیم کے ہمراہ روپوش ہو گئے، سابق ایس ایس پی سپریم کورٹ کی طلبی کے باوجود عدالت عظمی میں پیش نہیں ہوئے، سندھ پولیس بھی عدالتی احکامات کے باوجود ان کی گرفتاری میں یکسر ناکام ثابت ہوئی۔
دو ماہ تک مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ 2018 کو را ﺅانوار خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انہیں عدالتی حکم پر عدالت کے احاطے سے گرفتار کر کے کراچی پہنچا یا گیا۔کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 10 جولائی 2018 کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے راﺅ انوار کی ضمانت منظور کر لی تھی۔