شمشاد مرزا کے والدین بچپن میں ہی چل بسے تھے اور ان کی پرورش کرنے کیلئے خاندان کا کوئی اور فرد بھی موجود نہیں تھا۔ شمشاد مرزا کو بچپن ہی سے فوج میں بھرتی ہونے کا شوق تھا اور انہوں نے اپنے شوق کی راہ میں کسی رکاوٹ کو حائل نہیں ہونے دیا۔ قریب تین دہائیاں قبل انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور جب انہوں نے نوکری شروع کی تو اپنے رشتہ داروں کے خانے میں اپنی یونٹ آٹھ کور سندھ کا نام لکھا۔
تیس برس قبل فوج میں شمولیت اختیار کرنے والا یہ بے سہارا نوجوان آج پاکستان فوج میں لیفٹننٹ جنرل ہے اور اس کی اس عہدے تک رسائی سے دو باتیں عیاں ہوتی ہیں:
اوّل یہ کہ فوج کے ادارے کے نکتہ نظر سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ یہاں بنا کسی سفارش یا خاندان کے کوئی بھی شخص اپنی صلاحیتوں اور محنت کے دم پر اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس آپ کو پاکستان میں کوئی اور ایسا سرکاری ادارہ نہیں ملے گا جہاں ایک بے سہارا شخص ترقی کرتے کرتے اول ترین پوزیشنز میں سے کسی پر فائز ہو جائے۔
جنرل شمشاد مرزا کی اس کامیابی کا دوسرا اہم ترین سبق یہ ہے کہ کامیابی ان کے قدم چوما کرتی ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا کرتے اور زندگی کے مقصد کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کا دم رکھتے ہیں۔
اگر شمشاد مرزا بھی ہمت ہار دیتے یا یہ سوچتے کہ ان کا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے تو آج شاید وہ اس پوزیشن پر نہ ہوتے بلکہ عام افراد کی مانند زندگی کی بھیڑ میں گم محض سانسیں لینے کو زندگی گردان رہے ہوتے۔
شمشاد مرزا نے فوج میں دوران ملازمت انتہائی ایمانداری اور جانفشانی سے کام کیا اور وہ ان افسران میں سے ہیں جن کی ساکھ نہ صرف ان کے ادارے میں بیحد اچھی ہے بلکہ ناقدین بھی ان کی ساکھ کی گواہیاں دیتے نظر آتے ہیں۔
ترقی پانے سے قبل شمشاد مرزا ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے عہدے پر فائز تھے جو کہ انتہائی اہم اور کلیدی عہدہ ہوتا ہے۔ اس عہدے پر فائز افسر کو نہ صرف اندرون ملک مختلف معاملات پر نگاہ رکھنی ہوتی ہے بلکہ سرحدوں پر بالخصوص بھارت کے ساتھ بھی معاملات طے کرنے ہوتے ہیں۔ شمشاد مرزا نے اس عہدے پر فائز رہتے ہوئے نہ تو کبھی کسی ایسے کام میں دخل دیا جو ان کے ادارے کے آئینی اختیار سے باہر ہو اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی ماتحت کو کوئی ایسا حکم دیا جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ ادارے کے آئینی کردار کے علاوہ کسی اور کردار میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے حالات میں بھی انہوں نے انتہائی تحمل سے اپنے بھارتی ہم منصب سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا اور صورتحال کو مزید کشیدگی سے بچانے کیلئے اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرتے رہے۔
لیکن ہمارا موضوع ان کی خدمات نہیں بلکہ ان کی زندگی کی وہ انتھک محنت اور حالات کے خلاف ان کی وہ جدو جہد ہے جس نے انہیں شمشاد مرزا سے لیفٹننٹ جنرل شمشاد مرزا بنا دیا ہے۔ حالات کے خلاف ڈٹ جانے کی خواہش سب کی ہوتی ہے لیکن عملاً حالات کے خلاف لڑنے کی ہمت چند افراد ہی جٹا پاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں زیادہ تر افراد کامیابی کیلئے شارٹ کٹ کا انتخاب کرتے ہیں اور نتیجتاً اپنے شوق اور جنون کو پانے کے بجائے محض کسی بھی قیمت پر پیسے اور مرتبے پانے کی کاوشیں جاری رکھتے ہیں۔
حالانکہ اگر ہر فرد اپنے شوق اور جنون کیلئے دن رات ایک کر دے تو پیسہ اور مرتبہ خود بخود اس کے پاس آ جاتے ہیں اور وہ زندگی میں اپنے مقصد کو پانے کی طمانیت سے محظوظ ہوتے ہوئے ایک آسودہ اور پرمسرت عمر بسر کرتا ہے۔ خواب دیکھنا بھی جائز ہے اور انہیں ہر قیمت ادا کر کے پورا کرنا بھی درست فعل ہے اور لیفٹننٹ جنرل شمشاد مرزا نے یہ بات سچ کر کے دکھا دی۔ والدین کو کھونے کا دکھ، اکیلے رہ جانے کا صدمہ اور سر پر خاندان کے کسی فرد کا دست شفقت نہ ہونے کے باوجود انہوں نے جس ہمت اور جانفشانی سے زندگی کے مصائب کا سامنا کیا اور اپنے مقصد کو حاصل کیا وہ نہ صرف بذات خود ان کی زندگی کی سمت کو درست سمت میں گامزن کرنے میں معاون ثابت ہوا بلکہ یہ نئی نسل کیلئے ایک سبق بھی ہے کہ زندگی میں آزمائشوں سے کیسے نبرد آزما ہو کر منزل تک پہنچا جاتا ہے۔
شمشاد مرزا جیسے سیلف میڈ انسان دراصل اس وطن کے اصلی ہیرو ہیں جن کی زندگی سے معاشرے مین بسنے والے افراد محنت، ایمانداری اور لگن کا سبق سیکھ سکھتے ہیں۔