ڈاکٹر عبدالباری نے اس موقع پر حکومت کو پیشکش کی کہ اگر علما ان کی بات سننے کو تیار نہیں تو ڈاکٹرز کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلا دیں لیکن باجماعت نمازوں کو محدود رکھنے پر علما کو قائل کریں۔ اس موقع پر ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی نے علما سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔
ڈاکٹر سیاست کر رہے ہیں: شہباز گِل کا الزام
اس پریس کانفرنس پر ردِ عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما ڈاکٹڑ شہباز گِل نے ڈاکٹرز پر سیاست کرنے کا الزام لگا دیا۔ انہوں نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت جب کرونا پر سیاست کر کر کے تھک گئی تو سندھ سے ڈاکٹروں کو سیاست کے لئے آگے کر دیا اور سندھ کے ان سیاسی ڈاکٹروں سے گذارش ہے کہ سیاست نہ کریں۔ اس کے لئے سندھ حکومت ہے نا۔
وسیم بادامی کے پروگرام میں ان سے بار بار سوال کیا گیا کہ آخر ڈاکٹرز نے ایسی کون سی بات کی تھی کہ جس کی وجہ سے انہیں سیاست کرنے کا طعنہ دیا گیا تو شہباز گل صاحب بار بار کے استفسار پر تنگ آ کر بول اٹھے کہ یہ پریس کانفرنس سندھ سے کیوں ہوئی۔
کیا سندھ کے ڈاکٹر ہی حکومتی فیصلوں سے پریشان ہیں؟
سب سے پہلے تو عرض ہے کہ لاہور میں ڈاکٹروں کو ڈنڈے شہباز گِل صاحب کی جماعت ہی کی پنجاب حکومت مار چکی ہے۔ کوئٹہ میں ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج اور ان کی گرفتاریاں بھی بلوچستان حکومت نے، کیں شہباز گل صاحب کی جماعت جن کی اتحادی ہے۔ لہٰذا یہ دلیل انتہائی لغو بلکہ بدنیتی پر مبنی ہے کہ یہ پریس کانفرنس سندھ سے کی گئی لہٰذا یہ ڈاکٹر سیاست کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان میں بھی ڈاکٹروں کو گرفتار کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بھی ٹوئیٹس کے ذریعے یہ الزام لگایا تھا کہ ڈاکٹروں کا احتجاج پشتون تحفظ تحریک کے ایما پر کیا جا رہا تھا۔ یہ الزام لگاتے ہوئے وہ یہ بھی بھول گئے کہ جن ڈاکٹروں کی محمود خان اچکزئی سے ملاقات کی تصاویر وہ ٹوئٹر پر جاری کر رہے تھے، ان میں سے کوئی بھی پشتون نہیں تھا۔
شوکت خانم کے ڈاکٹر کا شہباز گل کو کرارا جواب
شہباز گِل صاحب کو جواب بھی شوکت خانم لاہور کے ڈاکٹر عاصم یوسف کی جانب سے اسی پروگرام میں دے دیا گیا کہ حکومت کی مجبوریاں اپنی جگہ اور لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ درست صحیح لیکن ڈاکٹرز کی جانب سے مشکلات کو سامنے لانے کو سیاست قرار دینا غلط ہے اور مسجدیں کوئی صنعتیں نہیں کہ جنہیں کھولے بغیر ملک کی معیشت بند ہو جاتی ہو۔ ان مسجدوں سے ایسی کوئئی ملازمتیں نہیں مل رہیں کہ جن کے بغیر لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لہٰذا مساجد کھولنے سے اختلاف کو سیاست نہیں قرار دیا جانا چاہیے۔
پاکستان میڈیکل اسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے شہباز گل کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کوئی ڈکٹیٹ نہیں کر رہا لیکن ڈاکٹرز اپنا نکتہ نظر سامنے رکھ کر حکومت سے ایک نظرِ ثانی کی درخواست کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جن بیس نکات کی بات کر رہی ہے جو مولوی حضرات کے ساتھ طے کیے گئے ہیں، ان پر عملدرآمد کیسے یقینی بنایا جائے گا۔
شخصی آزادیوں پر لیکچر بازی
اس پر شہباز گل نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گذشتہ روز دی گئی دلیل کو دہرایا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور مساجد میں جانے کا حق پاکستان کا آئین دیتا ہے جسے معطّل نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے تو یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، صحافیوں کو چینلز سے نکلوانے، چینلوں کو بند کروانے، کیبل سے غائب کروانے، سیاسی کارکنان کو احتجاج پر جیلوں میں ڈالنے، سیاسی مخالفین کو بغیر تفتیش کئی کئی ماہ جیلوں میں رکھنے اور سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کرنے کی بے شمار مثالیں قائم کی گئی ہیں اور ایک ایسی حکومت کے ترجمان یا وزیر اعظم کو اچانک شہری آزادیوں کا سبق یاد آ جانا ایک اچھا شگون ہے، لیکن افسوس کہ یہ سبق بھی انہوں نے ہمیں اس وقت سنایا ہے کہ جب وہ خود ایک طاقتور لابی کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتے۔ حکومتوں کا تو مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ طاقتوروں کے سامنے کمزوروں کے لئے ڈھال بن جائے۔ یہاں الٹا حساب ہے کہ کمزور پر تو خوب زور چلتا ہے لیکن جب طاقتور گروہ سامنے آتے ہیں تو حکومت بھیگی بلّی بن جاتی ہے اور اس کے ترجمان ڈاکٹروں کو سیاست کرنے کا طعنہ دیتے ہیں۔
کیا ہمارے علما کا اسلام باقی عالمِ اسلام سے مختلف ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران ہوں، مصر ہو یا ترکی، ان کے علما نے کیا کوئی کمتر اسلام سیکھا ہے جس کا ہمارے علما پر اطلاق نہیں ہوتا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ سعودی علما بھی پاکستانی علما پر تنقید کر رہے ہیں؟ گِل صاحب فرماتے ہیں کہ مذہب بڑا جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ تو کیا وہ علما جو انسانی جانوں کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے گھروں پر نماز ادا کرنے کی تلقین کر رہے ہیں، ان کے ایمان میں کوئی شک ہے؟ یہ بات طے ہے کہ عمران خان حکومت مولوی حضرات کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ التجا صرف اتنی ہے کہ اسے انسانی حقوق کی پاسداری کا نام دے کر اس مقدّس تصوّر کو داغ داغ نہ کریں۔
کیا امریکہ کی مثال قابلِ تقلید ہے؟
آخر میں، شہباز گِل صاحب کی اس دلیل کا جواب دینا ضروری ہے کہ امریکہ میں بھی چرچ بند نہیں کیے گئے۔ یہ سطور لکھے جانے تک امریکہ میں کرونا وائرس کے ساڑھے 8 لاکھ سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں اور اس مہلک وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 48 ہزار سے کچھ ہی کم ہے۔ خدا نہ کرے کہ شہباز گِل صاحب کی مثال پاکستان پر صادق آئے۔ اور ایک دعا کہ خدا ہمارے حکمرانوں کے ایمان اتنے مضبوط کرے کہ انہیں اپنی حکومت بچانے کی خاطر، کسی طاقتور مذہبی گروہ کے آگے سرنڈر نہ کرنا پڑے، اور یہ طاقتور معاشی گروہوں کے مفادات کے تحفّظ کی خاطر غریبوں کی بھوک کے نام پر سیاست نہ کرے۔ بلکہ ان طاقتور گروہوں کی ہٹ دھرمی کے سامنے عوام کے مفادات کی ضامن بنے۔