سماعت کے لئے مقرر وقت سے 15 منٹ کی تاخیر کے بعد آواز لگی کہ کورٹ آ گئی ہے۔ فل کورٹ کے دس معزز ججز اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے جب کہ سرکار کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان وکلا کے دلائل کے لئے مخصوص روسٹرم پر آ گئے۔ عامر رحمان نے آرٹیکل 187 اور 184(3) پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو اس کا دائرہ کار بتانا شروع کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مسز سرینا عیسیٰ کی نظرثانی کی اپیل کے گراؤنڈ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نہ سنے جانے کی دلیل پر نظر ثانی کی اپیل کا جواز نہیں ہے۔ عامر رحمان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسی کو سنے بغیر بھی حکم جاری کر سکتی ہے۔ جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے سوال پوچھا کہ بغیر سنے کسی کے خلاف فیصلہ دینے کا قانون میں کہاں ذکر ہے؟ عامر رحمان نے جواب میں کوئی قانون تو نہیں بتایا لیکن سپریم کورٹ کا ایک ضمانت کیس میں فیصلہ بتا دیا کہ اس میں یہ نظیر قائم کی گئی تھی۔ عامر رحمان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کسی بھی تنازع پر تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے اور تحقیقات کی ٹائم لائن بھی طے کر سکتی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مقررہ مدت میں تحقیقات کے حکم کا کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلیل دی کہ عدالت نے مسز سرینا کو سن کر اور ان کی تحقیقات کی خواہش پر FBR بھیجا۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اعتراض کیا کہ یہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ بتائیں کہ مسز سرینا عیسیٰ عدالت کے سوال پر ان کے کہنے پر یہاں پیش ہوئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید تصحیح کی کہ مسز سرینا عیسیٰ سے کسی نے FBR بھیجنے پر رائے نہیں بلکہ جب میں اس کورٹ میں پہلی بار پیش ہوا تو مجھ سے پوچھا گیا اور میں نے اس آپشن کو مسترد کر دیا تھا۔ جسٹس منظور ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہدایت کی کہ وہ بیٹھ جائیں اور عامر رحمان کا نکتہ نوٹ کر لیں اور بعد میں جواب دے دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ نوٹ کرنے کا وقت گزر گیا ہے اور حکومت کے حق میں تو یہی جاتا کہ یہ ایسی باتیں کریں جن کا مجھے جواب دینا پڑے اور سماعت طویل ہوتی جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا بینچ کو مخاطب کر کے کہنا تھا کہ دلائل دینا میرا حق ہے اور آپ کا حق ہے آپ اتفاق کریں یا مسترد کر دیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اعتراض نہیں کر سکتے۔ جسٹس مںظور ملک نے عامر رحمان کو ہدایت کی کہ وہ صرف قانونی نکات پر بات کریں۔ جسٹس منظور ملک نے ہلکے پھلکے انداز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دیکھیں آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بہت خوبصورت ٹائی لگا رکھی ہے اور ان کا موڈ بھی بہت اچھا ہے، براہ مہربانی ان کا موڈ مت خراب کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ دو فیصلوں کے کچھ حصے پڑھنا چاہتے ہیں تو جسٹس منصور علی شاہ نے انتہائی اہم سوال پوچھا کہ مسٹر عامر رحمان آپ ہمیں پہلے یہ بتائیں کہ ہم آپ کو کیوں سن رہے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وفاق نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا وہ ہم نے خارج کر دیا اور وفاق نے اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اب جب کہ آپ اس کیس میں فریق بھی نہیں تو آپ کا اس کیس میں دلائل دینے کا کیا دعویٰ ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دینے کے لئے ایک فیصلے کا سہارا لیا۔ اس کے بعد عامر رحمان نے دوبارہ بابر ستار کے ٹیکس امور پر دلائل کا ذکر کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پھر کھڑے ہو گئے اور استدعا کی کہ عامر رحمان پھر وہی حرکت کر رہے ہیں وقت ضائع کرنے والی۔ جسٹس منظور ملک نے پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہدایت کی کہ وہ بیٹھ جائیں اور ریمارکس دیے کہ عامر رحمان شریف آدمی ہیں انہیں دلائل دینے دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہاتھ معافی والے انداز میں جوڑ کر ہوا میں اٹھائے اور بولے جی اس عدالت میں صرف میں ہی ایک برا آدمی ہوں۔ جسٹس منظور ملک نے عامر رحمان کو ہدایت کی کہ وہ صرف قانونی نکات تک محدود رہیں۔ اس موقع پر چکوال سے تعلق رکھنے والے جسٹس قاضی محمد امین احمد نے بلند آواز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے کہ مسٹر عامر رحمان آپ کو اپنے دلائل کو چھوڑنے یا کم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آپ کو کھلے دل اور ذہن سے سن رہے ہیں آپ براہ مہربانی اطمینان سے دلائل دیں۔ عامر رحمان نے ایک بار پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر طنز کیا کہ یہ بڑے آدمی ہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پھر اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور بولے میں بہت حقیر انسان ہوں گا آپ میری ذات پر طنز مت کریں۔
جسٹس منظور ملک نے پھر درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہدایت کی کہ براہ مہربانی آپ بیٹھ جائیں اور میں آپ کو دیکھ سکتا ہوں آپ قرآن پاک پڑھ رہے ہیں تو آپ بس قرآن پاک پڑھیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تلخی سے اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ سر انہوں نے پہلے ہی میری زندگی دو سال سے اجیرن بنا کر رکھی ہوئی ہے اور ان کو یقیناً حق حاصل ہے کہ مزید دو سال بھی تباہ کر لیں۔ اس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس مسز سرینا عیسیٰ کے 18 جون کے بیان کی کاپی ہے تو وہ پڑھ کر سنائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض کیا کہ نظرثانی کی اپیلوں کا دائرہ کار بہت محدود ہے تو آپ کیوں بیان پڑھنے کو بول رہے ہیں؟ مسز سرینا عیسیٰ نے بھی اپنی نشست سے کھڑے ہو کر فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال سے استدعا کی کہ اگر میرے بیان کی ویڈیو ہے تو کمرہ عدالت میں چلائی جائے۔ جسٹس منظور ملک نے مسز سرینا عیسیٰ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بیان پڑھنا شروع کر دیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اپنے بیان کے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں۔ آپ پڑھ کر کیوں عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں؟
اس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ اگر عدالت نظرثانی کی اپیلوں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے FBR کو معاملہ بھیجنے کا حکم کالعدم بھی قرار دے پھر بھی FBR کی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی گئی رپورٹ کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عامر رحمان کا کہنا تھا کہ رپورٹ معلومات پر مبنی ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل ان معلومات کو زیر غور لا سکتی ہے اور اگر سمجھے تو اس کو سوموٹو ریفرنس میں بھی بدل سکتی ہے۔ عامر رحمان کا کہنا تھا کہ عدالت زیادہ سے زیادہ اپنے حکم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن جو معلومات سپریم جوڈیشل کونسل پہنچ چکی ہیں وہ واپس نہیں ہو سکتیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال پوچھا کہ اگر عدالت نظرثانی کی اپیلیں قبول کر لیتی ہے تو ہمارے حکم کی وجہ سے جو اقدامات لیے گئے اور تحقیقات کی گئی وہ کالعدم قرار پائیں گے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ کوئی ایگزیکٹو آرڈر نہیں جو کالعدم ہو جائے بلکہ معلومات پر مبنی رپورٹ ہے جو اپنی جگہ موجود رہے گی۔ جسٹس منیب اختر نے اگلا سوال کیا کہ معلومات تو اپنی جگہ موجود ہوں گی لیکن ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کے زیر غور رہنے کے لئے پھر بھی دستیاب رہیں گی۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حقائق حقائق ہوتے ہیں جن کو ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن جس حکم کے تحت یہ رپورٹ بنائی گئی اگر وہی غیر قانونی قرار دے کر کالعدم ہو جائے تو رپورٹ بھی زیر غور نہیں آ سکے گی کیونکہ وہ ایک غیر قانونی حکم کے تحت بنی ہوگی۔ اس کے بعد جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ آپ کو ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ اگر ہم فیصلہ دے بھی دیں کہ FBR بھیجنا غلط تھا تو کیا پھر بھی سپریم جوڈیشل کونسل ان معلومات کا سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے جائزہ لے سکتی ہے؟
اس موقع پر پورے 12 بج گئے تھے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت مؤخر کرنے کا کہہ کر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ کو کتنا مزید وقت درکار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کھڑے ہو کر کہا کہ مائی لارڈ سوری لیکن آج انہوں نے اپنے دلائل ختم کرنے تھے۔ آپ ان کو اتنا وقت کیوں دے رہے ہیں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جواب میں سوال کر دیا کہ قاضی صاحب آپ کو کتنا وقت دیا تھا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ براہ مہربانی یہ چھوڑ دیجئے، مجھ سے تو مت ہی کہلوائیے کہ مجھے کتنا وقت دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ جمعہ کی نماز ایک بجے کے بعد ہوتی ہے اور عدالت باآسانی عامر رحمان کو ایک بجے تک سن کر آج ہی سماعت مکمل کر سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ بات صرف جمعہ کی نماز کی نہیں رمضان بھی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ آپ کب تک دلائل ختم کریں گے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر میں سوموار کو اپنے دلائل مکلمل کر لوں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ کو سوموار کو جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ کے سوالوں کے جواب بھی لانے ہوں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر انتہائی اہم ہدایت دی کہ ہم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوالوں کے جواب مانگے تھے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دینے سے انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ یہ FBR رپورٹ سے متعلق سوال ہیں اور میں ان کا جواب اس فورم پر نہیں دوں گا بلکہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل گیا تو وہاں دوں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تو رپورٹ بھی نہیں پڑھی پھر ان کو کیوں لگا کہ وہ سوال رپورٹ سے متعلق تھے اس لئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان آپ ان سوالات کے جواب دے سکیں تو سوموار کو دے دیجئے گا۔
سماعت مؤخر ہونے کے بعد باہر نکلنے لگے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیٹی اور اپنی والدہ مسز سرینا عیسیٰ کی معاون سحر عیسیٰ نے صحافیوں کو مسز سرینا عیسیٰ کے صدر پاکستان عارف علوی کے نام کھلے خط کی کاپی دی۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اپنے خط میں صدر عارف علوی کو لکھا ہے کہ رمضان کا مہینہ رحمتوں کا بابرکت مہینہ ہوتا ہے جس میں ہم سب اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مسلمان دوسرے مسلمان کے اثاثوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ایک دوسرے کا خون اس مقدس مہینے میں بہا رہا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے دو روز قبل کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں ہونے والے بم دھماکے میں ہونے والے جانی نقصان پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ بہت سی جانیں بچائی جا سکتی تھیں اگر حکومت اپنی ایمبولینس بروقت بھیج دیتی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہوٹل کینٹ کے علاقے میں تھا اس لئے باآسانی فوجی ایمبولینسیں دستیاب ہو سکتی تھیں لیکن رضاکار اور خیراتی اداروں کی ایمبولینسوں پر زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جا سکا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ وی آئی پی قافلوں میں تو ایمبولینس حصہ ہوتی ہے لیکن عام آدمی کے لئے یہ سرکار ایمبولینس تک مہیا نہیں کرتی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے صدر مملکت آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام میں کوئی وی آئی پی نہیں ہوتا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد ہو جاتا تو ہزارہ برادری کے قتل عام اور سرینا ہوٹل پر حملوں کو روکا جا سکتا تھا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہزارہ پاکستانی شہری ہیں اور بلوچستان میں ان کو حکومت نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ وزیر اعظم عمران خان کا نام لیے بغیر لکھتی ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہزارہ برادری اپنے شہدا کی لاشیں لے کر سڑک پر بیٹھے ہوتے ہیں اور دفنانے کے لئے صرف تھوڑی ہمدردی مانگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ کسی کا غرور اتنا اہم ہے کہ وہ ان کو تھوڑی ہمدردی اور مہربانی دکھا کر ان کا اعتماد نہیں لوٹا سکتا۔
آخر میں مسز سرینا عیسیٰ افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ اگر ایک جج کوئٹہ دھماکے کے ذمہ داروں کا تعین کر سکتا ہے تو ریاست کی ایجنسیاں تمام وسائل ہونے کے باوجود ایسے حملے روکنے اور حملوں کے ذمہ داروں کے تعین میں ناکام کیوں ہیں؟ مسز سرینا عیسیٰ نے خط کے اختتام میں صدر کو یاد دلایا کہ انہوں نے حلف لے رکھا ہے کہ وہ لوگوں کی فلاح کے لئے ہر اقدام لیں گے۔
کمرہ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے ہم سب صحافی گفتگو کر رہے تھے کہ آخر جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر کی FBR رپورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ایسی کیا دلچسپی ہے اور وہ سپریم کورٹ میں اس رپورٹ کے حصوں پر بات کرنا چاہتے ہیں؟ جب کہ یہاں نظرثانی اپیلوں میں صرف FBR کو دیا جانے والا حکم زیرِ سماعت ہے اور اس تک محدود رہنے کی بجائے معزز ججز نجانے کیوں سپریم جوڈیشل کے سامنے موجود رپورٹ کی معلومات کو سپریم کورٹ میں لانا چاہتے ہیں۔