کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے گزشتہ مہینے پاکستان میں البدر نامی آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے جس کے بعد سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی دیکھی گئی اور شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی اضلاع میں بھی دہشتگردی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی پر نظر رکھنے والے ادارے نے مارچ کی سیکیورٹی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں عسکریت پسند حملوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان حملوں کے بعد پاکستان کے ڈرون طیاروں نے افغانستان کے خوست اور کونڑ صوبوں کے علاقوں میں بمباری کی جس میں مبینہ طور پر 40 افراد ہلاک ہوگئے ہیں تاہم آزاد زرائع سے ان ہلاکتوں کی تصدیق تاحال نہیں ہوئی۔ افغانستان میں پاکستان ڈرون طیاروں کے حملے ایک ایسے وقت میں کئے گئے جب پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں ایک بار پھر تیزی دیکھی گئی ہے اور پاکستان کی جانب سے مسلسل افغان حکام سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور شمالی وزیرستان میں گزشتہ روز ہونے والے حملے کے حملہ آور بھی افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کا ردعمل
پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں بارہا افغانستان کی طالبان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔
اتوار کے روز پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ یہ بیان طالبان حکومت کی جانب سے پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں کی افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ علاقوں پر بمباری کا الزام عائد کرنے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں افغانستان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کئی بار افغانستان کی حکومت سے سرحدی علاقہ محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔
افغان امور کے ماہر صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان نے نیا دور میڈیا کے نامہ نگار عبداللہ مہمند کو بتایا کہ پاکستان اس قسم کی کاروائیوں سے افغان عوام کے دلوں میں نفرت کو مزید بڑھا رہی ہے اور اس کا ردعمل گزشتہ روز افغانستان میں پاکستان مخالف مظاہروں میں دیکھا گیا ہے اور ایسے حملوں سے دونوں ممالک کے درمیان تلخی اور نفرت میں اضافہ ہوگا، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اس واقعے کے بعد افغان طالبان پر بھی افغان عوام کی جانب سے دباؤ بڑھے گا کیونکہ افغان طالبان کا پاکستان کے حوالے سے ماضی میں سخت گیر موقف نہیں رہا اور وہ ہمیشہ سے پاکستان کو دوست کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اگر افغان طالبان سے پاکستانی طالبان کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کررہے ہیں تو پھر بمباری اس کا حل نہیں اور مزاکرات کی میز پر بیٹھ کر سب سے پہلے اس مسئلے کو سمجھنا ہوگا کہ افغان طالبان کیوں پاکستانی عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن نہیں لے رہا ہے؟ کیا افغان طالبان کی صلاحیت اتنی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی اور پاکستان مخالف دیگر گروہ کے خلاف ایکشن لیں ؟ یا پاکستانی عسکریت پسند گروپوں کے خلاف ایکشن لینے سے افغان طالبان کے لئے کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں؟ یہ تمام نکتے ہیں جس پر غور کرنا ہوگا اور مزاکرات سے ہی اس کا حل نکالنا ہوگا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی اور افغان امور کے تجزیہ کار حق نواز خان کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان نےافغان طالبان کے لئے حکومتی سطح پر جتنے مثبت بیانات اور سفارت کاری کی تھی، اس کے جواب میں افغان طالبان کا پاکستان کے حوالے سے جو نرم گوشہ پیدا ہوا تھا وہ سب افغانستان میں پاکستانی طیاروں کی بمباری کی وجہ سےمتاثر ہوا یے ۔
حق نواز کے مطابق ماضی میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی مگر کبھی کابل میں طالبان نے پاکستانی سفیر کو بلا کر احتجاج اور دھمکی نہیں دی تھی جو اس واقعہ میں سامنے آیا جب پاکستان کے سفیر کو کابل میں افغان خارجہ امور کے وزارت بلا کر نہ صرف اس واقعے پر احتجاج کیا گیا بلکہ دھمکی بھی دی گئی کہ اس واقعے کا جواب دیا جائے گا۔
صحافی حق نواز بھی طاہر خان کے اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغان طالبان ہمیشہ پاکستان کے نزدیک رہے اور پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ پاکستانی طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کا معاملہ کئی بار اُٹھایا تھا اور افغانستان میں پاکستانی طالبان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ مگر اب یہ نہیں معلوم کہ پاکستان نے کن خفیہ معلومات کی بنیاد پر افغانستان کے سرزمین پر بمباری کی کیونکہ پاکستان کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر یہ موقف اختیار کیا جارہا ہے کہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی مگر افغانستان سے جو ویڈیوز، تصاویر اور معلومات سامنے آرہی ہے اس سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ان حملوں میں عام لوگ مارے گئے ہیں اور اس وجہ سے افغان طالبان پر دباؤ ہے اور وہ اس دباؤ کو کم کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی لائحہ عمل اختیار کرینگے۔
افغان طالبان نے ان حملوں پر کیا ردعمل دیا ہے؟
پاکستان پر فضائی حملوں کے الزام کے بعد طالبان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو طلب کیا۔
افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’افغان حکام نے خوست اور کنڑ کے کچھ حصوں میں پاکستانی افواج کے حالیہ حملوں کی شدید مذمت کی اور اس مزید ایسے حملے نہ کیے جانے کا مطالبہ کیا۔‘
طالبان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستانی سفیر سے کہا ہے کہ ’خوست اور کنڑ سمیت تمام عسکری خلاف ورزیوں کو روکنا ضروری ہے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
کیا افغان طالبان کے پاس آپریشنل صلاحیت ہے؟
افغان امور کے ماہر طاہر خان کہتے ہیں کہ افغانستان میں پہلے اشرف غنی کی حکومت تھی جن کے پاس آپریشنل صلاحیت سمیت ایک ریاستی ڈھانچہ موجود تھا اور انھوں نے پاکستانی طالبان کو پابند سلاسل بھی کیا تھا مگر افغان طالبان اس وقت نہ صرف اندرونی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے بلکہ دوسری جانب ان کے پاس اشرف غنی حکومت کی طرح ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کے خلاف ایکشن لے سکےاور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب ہے اور اس وجہ سے وہ ایکشن لینے کے موڈ میں نہیں ہے جبکہ افغان طالبان اس مسئلے کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ سمجھتے ہیں۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی پاکستان کا موقف کتنا درست ہے؟
پاکستان مسلسل افغانستان پر الزام لگارہا ہے کہ افغانستان میں پاکستانی عسکریت پسند بھاری تعداد میں موجود ہے اور وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔
سال 2020 میں اقوام متحدہ کی جانب سے اس حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ افغانستان ميں 6 سے ساڑھے 6 ہزار کے درميان پاکستان مخالف شدت پسند پناہ ليے ہوئے ہيں ۔ رپورٹ کے مطابق ان شدت پسندوں کی اکثريت کا تعلق کالعدم تنظيم 'تحريک طالبان پاکستان سے ‘ (TTP) سے ہے۔ رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ اس تنظيم کے افغانستان ميں 'اسلامک اسٹيٹ‘ یا داعش کی مقامی شاخ کے ساتھ بھی روابط ہيں اور يہ پاکستان ميں سويلين اور عسکری اہداف پر حملوں ميں ملوث رہی ہے۔ فوری طور پر کابل حکومت کا اس رپورٹ پر کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا۔
کیا پاکستان کے خلاف طالبان کا سخت موقف سامنے آئے گا؟
افغان امور پر معلومات رکھنے والے تجزیہ کار اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغان طالبان کے دو دھڑے ہیں ، ایک دھڑا پاکستان کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھتا ہے جبکہ دوسرا دھڑا پاکستان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور دونوں دھڑےپاکستان کے حوالے سے تعلقات کی نوعیت پر تقسیم کا شکار ہے۔
صحافی حق نواز اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو دھڑا پاکستان کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھتا تھا وہ اب نرم گوشہ رکھنے والے دھڑے پر دباؤ ڈالے گا اور ایسا لگ رہا ہے کہ ان حملوں کے بعد دونوں دھڑے پاکستان کے حوالے سے مستقبل کے تعلقات پر ایک پیج پر آجائینگے اور پاکستان کے حوالے سے مستقبل میں سخت گیر موقف کے ساتھ سامنے آئینگے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں افغانستان میں راکٹ فائر کئے تھے مگر طیاروں سے بمباری کا واقع پہلی بار سامنے آیا ہے۔ افغان طالبان کا ماننا ہے کہ یہ حملے افغانستان میں پاکستان کی جانب سےمداخلت اور ایک قسم کا جنگی حربہ ہے اس لئے میری رائے یہی ہے کہ جنگی بنیادوں پر سفارتی محاذ پر ان حملوں کے بعد پیدا ہونے والے صورتحال پر قابو پایا جائے کیونکہ دونوں ممالک اس وقت اندرونی سیاسی اور معاشی مسائل کا شکار ہے اور اس سے مسائل جنم لینگے جن کے اثرات دونوں ممالک کے عوام پر ائینگے۔