تفصیلات کے مطابق پی ایم سی کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی اور نائب صدر علی رضا نے ٹپس نامی جعلی کمپنی کو ٹھیکا دے کر مبینہ سابق وزیراعظم کے کزن نوشیروان برکی کی ایما پر ملی بھگت سے اربو ں روپے کمائے۔ یہ دعویٰ نجی ٹی وی چینل نیو نیوز نے کیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق جعلی پی ایم سی کمپنی سکینڈل کیس کی تحقیقات کے لیے درخواست سمیت تمام ثبوت نیب میں جمع کرادیے گئے، پاکستان بھر سے ایک لاکھ 75 ہزار میڈیکل سٹوڈنٹس کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوائے گئے جبکہ حیران کن طورپر ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کی فیس پندرہ سو تھی لیکن ملی بھگت سے فیس بڑھا کر 16 ہزار کردی گئی۔ علی رضا اینڈ کمپنی نے این ایل ای اور میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے انعقاد کے لیے ایک جعلی کمپنی کو ٹھیکا دینے کے تمام قوانین کو نظرانداز کیا اور پیپر ا قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹھیکا دیا گیا تھا ۔ ٹینڈر کے موقع پر ٹپس نامی کمپنی کی رجسٹریشن ہی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بعد رجسٹرڈ کروا کرمذکورہ کمپنی کو نوازا گیا تھا۔
دوسری طرف میڈیکل انٹری ٹیسٹ اور این ایل ای امتحان میں جعلی سازی کی گئی ۔ پہلے طلباو طالبات کو پاس کیا اور پھرفیل کیا گیا۔ اپنی مرضی کے مطابق امتحان کے رزلٹ بنائے گئے۔ پی ایم سی کی بڑے پیمانے پرکرپشن کے معاملے پر سب سے پہلے آوازاٹھانے والے نجی کمپنی کے ڈائریکٹر عامر حسین نے معاملے کی تحقیقات کے لیے نیب میں درخواست دے دی۔ جعلی پی ایم سی کمپنی سکینڈل کیس کے تمام ثبوت بھی نیب میں جمع کروا دیے گئے ۔ نیب میں جمع کروائی گئی درخواست میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کا ٹپس نامی سنگل ممبر کمپنی کو خفیہ طور پر اورقوانین کے برعکس ایم ڈی کیٹ اور این ایل ای کے امتحان کے انعقاد کے لیے ٹھیکا دیا گیا اور سرکاری خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا اور سور ٹپس نامی فرم کو اربوں کا مالی فائدہ دیا گیا۔
نیو ٹی وی کے مطابق مذکورہ کمپیوٹر پر مبنی ایم ڈی کیٹ اور این ایل ای کا امتحان لینے کے لیے ٹپس نامی فرم اہل ہی نہیں تھی ۔فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے پی ایم سی کے نائب صدر علی رضا نے کمپنی کے مالک عثمان رشید کو اربوں کا فائدہ دیا ۔ نیب کو دی گئی درخواست کے مطابق صدرڈاکٹر ارشد تقی ، نائب صدر علی رضا اور کمپنی کے مالک عثمان رشید سے آپس میں تقسیم کی گئی رقم وصول کی جائے اور معاملے میں ملوث پی ایم سی کے صدر ، نائب صدر اور ٹپس نامی کمپنی کے مالک کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے ۔درخواست میں بتایا گیا ہے کہ کوئی خاص شرط نہیں تھی کہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کمپیوٹر پر مبنی ہولیکن صرف عثمان راشد اور اس کی کمپنی کو فائدہ دینے کے لیے جان بوجھ کر ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کوکمپیوٹر بیسڈ بنایا گیا تاکہ مذکورہ فرم کو نوازا جاسکے۔
درخواست کے مطابق پی ایم سی نے 1لاکھ 75سٹوڈنٹس کا ایم ڈی کیٹ امتحان کے انعقاد کے لیے 4جولائی 2021کو اشتہار دیا تھا لیکن پی ایم سی نے اپنے صدر اور نائب صدر کی غلط ہدایات کے تحت نہ تو ٹینڈرکا کوئی دستاویز تیار کیا اورنہ ہی کسی فرم کو فراہم کیا۔ پیپر ا قوانین کے برعکس ٹپس نامی فرم کوچالیس ارب کا ٹھیکا دس سال کے لیے دے دیا گیا ۔حیران کن طورپر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے بھی مذکورہ ٹھیکا پیپرا قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود ٹپس نامی فرم کو 115ملین جاری کردیے گئے۔
بعد ازاں مذکورہ معاہدہ باہمی طور پر ختم کر دیا گیا لیکن نائب صدر علی رضا صدر پی ایم سی پہلے کنٹریکٹ کو منسوخ کرنے کے باوجود دوبارہ کمپیوٹر پر مبنی ایم ڈی کیٹ، این ایل ای، نیب اور ایل آر ای کے امتحانات کے انعقاد کے لیے ٹپس کو ٹھیکا دینے کے لیے اشتہار دے دیاگیا۔