درج شدہ ایف آئی آر کے مطاق متاثرہ بچی حرا کے والد عبدالرحمن نے پولیس کو بتایا ہے کہ میری 6 سالہ بچی حرا عصر کی نماز کے بعد مدرسے جارہی تھی کہ راستے میں اسی مدرسے میں پڑھنے والے 19سالہ طالب علم جہانگیر اسے چیز لینے کے بہانے قریبی ویرانے میں لے گیا جہاں اس نے بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی ۔
واقعہ کے بعد بچی کوسیدو شریف ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے جہاں اسے طبی امداد دی جارہی ہے ۔معائنہ کرنے والی ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق کی ہے۔
رحیم آباد تھانے کے محررلیاقت علی نے میڈیا کو بتایا کہ متاثرہ بچی کے رشتہ داروں کی درخواست پر پولیس نے 19 سالہ ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی سوات سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ دوسری جانب رواں سال مارچ میں چائلڈ پروٹیکشن بل میں ترمیم کا بل منظوری کے لیے خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ چائلڈ پروٹیکشن ترمیمی بل2010میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں اور ان کی فحش ویڈیوز بنانے والوں کو سزائے موت یا عمر قید اور 50 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ساحل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2020کے دوران ملک میں بچوں کے جنسی استحصال کے2960 کیسز ریکارڈ کئے گئے ہیں، جن میں جنسی زیادتی کے 787اقعات بھی شامل ہیں۔ ادارے کے مطابق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2020میں پاکستان میں ہر روز 8 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔