لاہور جلسہ کے بعد عمران خان کی عوامی مقبولیت کی نمائش کا سلسلہ جو حکومت کے ختم ہونے سے پہلے شروع کیا گیا تھا، ختم ہوا اور عوام کو اسلام آباد کے لئے کال کے انتظار کے ساتھ ایک دفعہ سازشی بیانیہ غیر معینہ مدت کے لئے عوامی اجتماعات کی حد تک اختتام کو پہنچا۔
ان کی مقبولیت کی بحث ایک طرف سازشی بیان کہاں تک ٹھیک ہے یا غلط ہم اس میں بھی نہیں پڑتے مگر ان کے دور حکومت کے پونے چار سالوں کی کارکردگی کے بارے بات کرناہر شہری کا حق ہے۔
اس بات کا اندازہ لگانا کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے اپنے منشور اور وعدوں کو کہاں تک مکمل کیا، سوال تو بنتا ہے؟ بدعنوانی کے خاتمہ کا نعرہ لگانے والی حکومت کے دور میں بدعنوانی کا گراف کیا رہا؟ میڈیا کی مدد سے حکومت میں پہنچنے والی جماعت نے میڈیا کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کے بارے سوال کرنے میں تو عوام حق بجانب ہے۔
سازشی خط کے پیچھے چھپ کر انہوں نے ان تمام سوالوں کا جواب دینے سے اپنے آپ کو وقتی طور پر بچا تو لیا مگر ابھی انتخابات میں کافی وقت باقی ہے۔ یہ سوال پھر سے ابھریں گے اور ان کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مخالفیں کی زبان تو بند نہیں کی جا سکتی۔
ان کے سازشی بیانیے کی بازگشت امریکہ تک پہنچ چکی ہے اور ہر طرف سے اس کی انکوائری کے مطالبات کئے جا رہے ہیں جو آئین وقانون اور انصاف کا تقاضہ بھی ہے اور وہ بھی یقیناً یہی چاہتے ہونگے تو اس کے لئے ان کو بھی پارلیمنٹ کے اندر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے تمام تر شواہد کے ساتھ اپنے بیانیے کو ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے تاکہ سازشی بے نقاب ہو سکیں اور قوم دیکھ سکے کہ حقیقی سازشی ہیں کون؟
عوامی اجتماعات میں موجود لوگوں کی شرکت اور سوشل میڈیا کے ریکارڈ ان کی عوام میں مقبولیت کا تو ثبوت ہیں مگر شاید ایک خاص طبقہ جو ان کے ہم مزاج بھی ہیں کا ان کی ذات کی طرح غربت، مہنگائی اور بے روزگاری مسئلہ ہی نہیں، ان کے مسائل کچھ اور ہیں جن کی منزل شائد ہر صورت اقتدار اور اس سے مفاد کا حصول ہے نہ کہ عوامی فلاح۔
خان صاحب کی مقبولیت کا یہ سرمایہ ٹویٹر ٹرینڈ تو چلا سکتا ہے۔ عمران خان کی حمایت میں بدتمیزی اور بد زبانی تو کر سکتا ہے مگر غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے پسے عوام کا مداوا نہیں کر سکتا اس کا علاج صرف اور صرف کارکردگی میں ہی تھا جس کا وقت اب گزر چکا ہے۔ بد زبانی کرنے والوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ زبان ہر کوئی رکھتا ہے مگر ضمیر کی خواہش یا ہدایت مختلف ہو سکتی ہے جس کی وجہ اس کے پیچھے تربیت اور سوچ کا عمل دخل ہوتا ہے۔
اگر برا نہ منائیں تو اب ان کے خطرناک ہونے کا وقت بھی گزرا چاہتا ہے۔ ان سے لگی امیدوں کی بدولت حمائت کا موسم بھی بدل چکا۔ ان کی حمایتی ایلیٹ کلاس نے عوامی اجتماعات اور ٹویٹر سیاست کی زور آزمائی بھی کر لی۔ سادہ عوام بے خبر سہی مگر وہ خود تو حقائق سے بخوبی واقف ہیں لہذا اب ان کو حقیقت کی سیاست کا رخ کرنا اور سنجیدہ سیاست کی طرف لوٹنا ہوگا۔
انہوں نے پاکستان کی ترقی کے لئے جو کر سکتے تھے، اپنی کوششوں کو خوب آزما لیا اب متحدہ اپوزیشن کو بھی وقت دیں تاکہ ملک وقوم کی ترقی کی خاطر وہ بھی اپنے زور بازو کو آزما لیں اب ان کی آزمائش میں رکاوٹ کا بہانہ بھی ختم کردیں اور ان کو کھل کر کام کرنے دیں تاکہ کل وہ بھی کوئی سازشی پلان کا سہارا لینے کے بہانوں کے پیچھے نہ چھپتے پھریں۔
انتقام کی سیاست کے ہم حامی نہیں مگر دور اقتدار کے عرصہ کا حساب تو آئینی وقانونی تقاضہ ہے لہذا اب ان کو اور ان کے وزرا کو چاہیے کہ اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام تر الزامات کے حساب کی صفائی دے کر مخالفین کا منہ بند کردیں ۔ ایک اچھے شہری اور پختہ سیاسی قیادت کا ثبوت دیتے ہوئے عدالتی نظام انصاف کا سامنا کرتے ہوئے اپنے صادق اور امین ہونے کے سرٹیفکیٹ کا بھرپور طریقے سے دفاع کرنا چاہیے۔
عوام اور اداروں کو باور کروا دیں کہ وہ ہی پاکستان اور عوام کے پاس واحد آپشن ہیں۔ اسمبلی میں بیٹھ کر مثبت اور موثر طریقے سے حزب اختلاف کا کردار ادا کریں اور جہاں ضرورت ہو حکومت کی اصلاح کریں اور اگر ہو سکے تو وہاں بیٹھ کر آئینی طریقے سے تمام سازشی اقدامات کا مقابلہ کریں اور وہاں پارلیمنٹ کے اندر سازشوں کو آئینی طریقہ سے شکست دے کر ملک و قوم کا دفاع کریں ۔
اپنے دور حکومت کی کارکردگی کے بارے اٹھنے والے سوالات اور الزامات کا بھی وہاں بیٹھ کر ہی بہتر طریقے سے جواب دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح عوام کے سوالوں کے جوابات، اپنی کارکردگی اور حق کی جنگ کو پارلیمنٹ، میڈیا اور سوشل میڈیا پر اچھے طریقے سے لڑ کر عوام کے اندر اپنی مقبولیت کو اور بھی زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
اب آپ پر حکومتی اختیارات کے استعمال کا الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا لہذا چاہیے کہ چور اور لٹیروں کا پارلیمنٹ ، عدالتوں اور عوام میں نہ صرف کھل کر مقابلہ کریں بلکہ ان کی اپنے حکومتی تجربات کی روشنی میں نگرانی بھی کریں تاکہ یہ مزید خزانے پر کوئی ڈاکہ نہ ڈال سکیں۔
فوری انتخابات کا مطالبہ اپنی جگہ مگر یہ اپنا وزن اس لئے کھو چکا ہے کہ جب متحدہ اپوزیشن مطالبہ کر رہی تھی تو وہ اقتدار کے مزے میں اس پر توجہ نہیں دے رہے تھے اور اب وہ اپنا آئینی حق کھو چکے ہیں لہذا اخلاقی ذمہ داری کی لاج رکھتے ہوئے اگر ان کے پاس کوئی آئینی راہ ہے تو اس کو اپنائیں ورنہ انتظار ہی ان کا نصیب ٹھہرا۔
انہوں نے اجتماعات سے اپنے خطابات میں کچھ غلطیوں کا بھی اعتراف کیا تھا جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا بھی ذکر کیا تھا کا بھی تفصیل سے جواب دینا
ہوگا اور قانون کی نظر میں اعتراف سے بڑی کوئی شہادت نہیں ہوتی لہذا اس پر ان کی مدبرانہ سوچ کیا کہتی ہے سننے کے لئے قوم منتظر ہے۔ کسی عام انسان کا بھی
الزامات کا سامنا کرنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے ، جس کا ان کو اندازہ ہوگا وہ تو ایک اعلیٰ عدلیہ کے جج ہیں وہ اور ان کی فیملی کس کرب سے گزری ہوگی اس پر ریاست مدینہ کا کیا شیوہ رہا ہے بارے عملی مثال قائم کرنا ہوگی۔
ریاست مدینہ کو قائم کرنے کے لئے انہوں نے پونے چار سال بھر پور کوشش کی اور ان کی راہ میں حائل کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی اور وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہوسکے وہ قوم کے سامنے ہے۔ کم از کم ریاست مدینہ کے معماروں کا کردار ، رویہ اور اخلاق تو ہم اپنا سکتے ہیں اور اگر ان کی اقدار کا نفاذ ہم اپنے ساڑھے پانچ یا چھے فٹ کے بدن پر بھی نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں محض گلاں نال لاہور بنانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
آخر میں التجا کروں گا کہ ایک اسلامی جمہوری ریاست کے اندر اخلاقی، آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہ کر تبدیلی کی کوشش ہی قیادت کے مخلص اور ملک و قوم کے ساتھ وفادار ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے اور محض مقبولیت ہمارے قومی مسائل سے نجات کا قطعاً پائیدار اور جائز حل نہیں ہے۔ آئین کا تقاضہ مقبولیت نہیں بلکہ اکثریت ہے جس کو ثابت کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے نہ کہ سڑکیں اور سوشل میڈیا ۔