پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ رجیم چینج متحدہ اپوزیشن کی سیاسی جدوجہد اور دباؤ کے نتیجے میں نہیں آئی بلکہ حکومت ناقص ترتیب وتشکیل کی وجہ سے چلنے سے قاصر تھی۔ سہارا دینے والے تھک چکے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس طرح دھڑام سے گریں جس کے نیچے وہ خود آکر اپاہج ہو جائیں۔
سردست تو لگتا ہے کہ اپوزیشن نے کندھا دے کر کسی اور کو بچا لیا لیکن سوال یہ ہے کہ کسی قیمت پر؟ کیا واحد مقصد عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا تھا؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ وہ ''چنتخب''، نااہل اور بدعنوان تھے۔ لیکن کیا اگلے الیکشن تک پاکستان کے خاردار میدان سیاست سے سارے کانٹے چن لئے گئے ہیں؟
کیا ادارے نے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے آئینی سیاسی نظام دل وجان سے قبول کیا یا وقتی طور پر خود کو دلدل سے نکالنے کیلئے کوئی چال چلی ہے؟
اب تک تو سلسلہ نیوٹرل یا غیر جانبداری سے شروع ہوا تھا اور غیر سیاسی تک پہنچا۔ یہ سب رضا کارانہ اقدام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بھلا تاریخ میں کسی نے رضا کارانہ طور اقتدار چھوڑا ہے جس میں صرف اختیار اور اقتدار ہو، جس میں نیک نامی اپنے کھاتہ میں اور بدنامی کسی اور کے حصہ میں، جس میں پس آئینہ کوئی اور، پیش آئینہ کوئی اور، جس میں کوئی باز پرس اور محاسبہ نہ ہو؟
موجودہ جانبداری کے دور میں بھی سلامتی، جو کسی بھی وقت خیمے میں عربی کا اونٹ بن سکتا ہے، پر مہارت کی بنیاد پر دھیمے لیکن پرزور انداز میں اجارہ داری کے اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہی سلامتی تو ہے جس نے اتنے پھل پھول کر آئین اور باقی ریاستی اعضا کو اپاہج بنا دیا۔
میرے خیال میں اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ موجودہ لچکدار رویے کا سبب کوئی اندرونی و بیرونی سیاسی دباؤ یا پی ڈی ایم کے جلسے جلوس نہیں بلکہ معاشی ابتری کا دباؤ ہے۔
یہ معاشی انحطاط نہ کسی جنگ کے نتیجہ میں آیا ہے نہ کسی قدرتی آفت کی وجہ سے بلکہ دفاع اور سلامتی کے نام پر بے توازن، غیر ترقیاتی اخراجات اور مغربی ممالک سے مالی امداد کی بندش اس کا بڑا سبب بنا۔ کیونکہ پچھلی سات دہائیوں سے جتنی مغربی امداد پاکستان کو ملی اس کا زیادہ تر حصہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر دفاع اور انتظامی مد میں چلا گیا ہے اور پیداواری مد تقریباً نظر انداز کی گئی۔ اب اتنا بڑا، وسیع اور غیر متوازن دفاعی نظام چلانا قومی پیداوار کے بس سے باہر ہے جس کو پیچھلی کمزور حکومت کی نااہلی اور قومی وسائل کے تقسیم پر عدم کنٹرول نے مزید دگرگوں کر دیا جو کساد بازاری اور مہنگائی کے طوفان کی صورت میں کھڑا ہے۔
ہم یہ سن رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں بیس ہزار ارب روپے کے قرضے لئے جو تمام ریاستی قرضوں کا تقریباً 40 فیصد بنتے ہیں لیکن عوام کو اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اس قرضوں کی رقم کس کس مد میں خرچ کی گئی؟
فطری طور پر، ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اگر مغرب کیلئے پاکستان کی حیثیت نہ بدلتی اور 1958، 1977 ، 1999 کی طرح اسٹیبلیشمنٹ کو مغریب سے فوجی اور سفارتی خدمات کے بدلے امداد کے بہاؤ کا امکان اور امید ہوتی تو کیا وہ نواز شریف کے خلاف عمران خان سے دھرنے کرواتا، پانامہ بینچ سے ان کو نااہل کرواکر ایک متلون مزاج پلے بوائے کی نام نہاد قیادت میں آدھا تیتر آدھا بٹیر حکومت بنائی جاتی؟
بادی النظر میں مسئلہ طرفین کی مجبوریوں کا ہے۔ کیونکہ پاکستانیسیاست میں اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت اور بالادستی اتنی سادہ نہیں ہے۔ یہ صرف سیاسی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ان کے گہرے اور پیچیدہ معاشی مفادات کا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اٹلی کو ایک مافیا کا سامنا تھا جس نے ریاستی نظام کو مفلوج کرکے ریاست کو بے بس کر دیا تھا۔ پیچیدہ اور موثر اقدامات کے باوجود قابو میں نہیں آ رہا تھا، آخرکار ریاست کو ان کی مخصوص معاشی سرگرمیوں اور کاروباری سیکٹر پر اجارہ داری ماننا پڑی۔
یہاں تو صورتحال یکسر مختلف اور گھمبیر ہے۔ اس موضوع پر نہ کوئی قومی ڈائیلاگ ہوا ہے، نہ کھل کر سیاسی مباحثہ جس کی رو سے فریقین کی سیاسی ومعاشی حدود وقیود متعین ہوئی ہوں۔ قومی سیاسی منظر نامہ انتشار اور تقسیم کا شکار نظر آ رہا ہے۔
ظاہر ہے فی الوقت تو عمران خان کا کردار نہ کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا والا ہے، اور نہ ان کا مسئلہ عوامی اور آئینی بالا دستی کا ہے۔ اس نے تو ایک دفعہ پھر سے کسی بھی قیمت پر حکومت میں آنا ہے۔
لیکن متحدہ اپوزیشن جس نے موجودہ حکومت بنائی ہے، کیا حقیقت میں متحد ہے اور اگر متحد ہے تو کس مقصد کیلئے؟ کیا مقصد اپنی اپنی پارٹی اور خاندانوں کیلئے زیادہ سے زیادہ وزارتیں اور حصہ حاصل کرنا ہے؟ باقی مانندہ عرصہ حکومت کرنا، مانگے تانگے سے معیشت میں تھوڑی سی وقتی رونق پیدا کرنا اور اگلے انتخابات میں اپنا اپنا حصہ بقدری جثہ یقینی کرنا ہے، اور پھر سے بدنام و بے آبرو ہو کر نکلنا ہے یا ایک وسیع قومی مباحثے کا اہتمام کرکے پہلے سیاست کو آزاد کرنے، آئینی اور پارلیمان کے بالادستی، خصوصاً قومی وسائل کی تقسیم کو یقینی بنانے کیلے ایک قومی چارٹر پیش کرکے اس کے من وعن نفاذ کیلئے قابل عمل لائحہ عمل وضع کرنا ہے۔
کیا اب وقت نہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ کو دوٹوک الفاظ میں کہا جائے کہ اب خود اگاؤ اور کھاؤ والا ٹائم آ چکا ہے۔ ریاست کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ڈوبتی ہوئی معشیت ہے اور اس کی بڑی وجہ غیر متوازن دفاعی اخراجات ہیں، اب ریاست کی بقا فوری طور پر اس میں بیس سے پچیس فیصد کٹوتی ہے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں حکومت کے لئے خطرہ بھی ہے اور موقع بھی۔ دیکھتے ہیں کہ اس کے شرکا کی نظر اونٹ پر لدے ہوئے سونے کے جواہرات پر ہے یا اس کے گلے میں لٹکے ہوئے جرس پر۔