اس معاشرے کے شریف زادوں کے نزدیک عورت محض ایک کھلونا ہے

اس معاشرے کے شریف زادوں کے نزدیک عورت محض ایک کھلونا ہے
آزادی کے مینار کے نیچے ہوئے ایک نازیبا حادثے نے جو ہماری جگ ہنسائی کی ہے اسکا اندازہ تو شاید لگانا ممکن نہیں۔ لیکن اس نے جو دنیا کو ہمارے سماج کا مجموعی تاثر دیا ہے وہ بہت بھیانک ہے۔ کیا مہذب معاشرے تنہا عورت کے ساتھ اس درجہ پستی سے پیش آتے ہیں؟ کیا ہماری تعلیمات ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ عوت کو جنسی کھلونے سے زیادہ کچھ وقعت نہ دی جائے۔ اگر ہماری تعلیمات حسن اخلاق سے عاری نہیں تو پھر 14 اگست کو ہونے والے واقعے میں کس قسم کے لوگ تھے۔ 400 شریف زادوں نے تنہا عورت کو جس بیدردی سے بھنبوڑا ہے کوئی بھی شریف ذہن ایسی کمینگی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک عورت کو جسے مجموعی طور پر چار سو مردوں نے جس بری طرح سے نوچا ہے اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ اس واقعے کی مزمت کرنے کے لئے الفاظ قلم کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ پورے ڈھائی گھنٹے ایک عورت اتنے مردوں کے لئے تفریح کا باعث بنی رہی کبھی وہ اس کے جسمانی اعضا دبوچ رہے ہیں تو کبھی اسے ہوا میں اچھالا جا رہا ہے۔ ان شریف زادوں کے نزدیک عورت محض ایک کھلونا ہے ایک گڑیا جسے جس طرح جی چاہے، بھرے مجمع میں کھیلا جائے گھسیٹا جائے۔ وہ کوئی زندہ مخلوق تو ہے نہیں جس کے لئے کسی قسم کی اخلاقی قدر کا مظاہرہ کیا جائے۔ ہم اس قدر پست اور گھٹیا ذہن ہو چکے ہیں جنھیں اپنے اسلاف کی کوئی بھی خوبی رتی برابر بھی یاد نہیں رہی۔ کیا زندہ معاشرے ایسے ہوتے ہیں۔ بھیڑ میں بھی عورت خود کو محفوظ تصور نہ کرے تو پھر اس کے اس سماج میں رہنے کا جواز کیا رہ جاتا ہے۔

ہماری ڈھٹائی کا عالم دیکھئے کہ ہم نے اس طرز عمل کو برا سمجھنے کی بجائے الٹا عورت کو ہی گالیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ کیوں وہ گئی اقبال پارک؟ کیوں اس نے مردوں کو بیچ ٹک ٹاک شوٹ کرنے کی کوشش کی۔ یہ اگر با کردار ہوتی تو گھر بیٹھتی۔ یعنی ان حضرات کے نز دیک جو عورت گھر سے باہر نکلے وہ بے حیاء اور بد کردار ہے۔ مرد کا پورا حق ہے کہ وہ اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرے اسے لعن طعن کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بدن سے بھی حظ اٹھائے۔ ہم یہ کہہ کر بات سمیٹ دیتے ہیں کہ اس عورت نے ہی یقیناً مرد کے جذبات کو مشتعل کیا ہو گا۔ ہم عورت کو سکھ کا ذریعہ اس لئے سمجھتے ہیں وہ مرد کے جسمانی تقاضوں کے لئے بنی ہے۔ ورنہ اس سے زیادہ لعنت زدہ تخلیق تو خدا نے روئے زمین پر کی ہی نہیں۔ کبھی عورت کو مرد کی بائیں پسلی سے پیدا ہونے والی مخلوق کہہ کر اسکی تحقیر کی جاتی ہے۔ تو کبھی اسے فتنہ کہہ کر مرد کو بہکانے والی بد طینت مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہمارا عمومی رویہ ہے جو اس کیس میں بھی ہم نے پوری ایمانداری سے نبھایا ہے۔ اس میں سماج کے وہ پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ عورت اقبال پارک گئی کیوں؟ اس نے اپنے فینز کے ساتھ سیلفیاں کیوں بنائیں؟ اس لئے اس پر کیس ہونا چاہئے کہ اس نے مردوں کو ہراساں کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک عورت نے چار سو مردوں کو ہراساں کیا ہے۔ عورت کو محض ایک کھلونا سمجھنے والا سماج جتنی بھی تاویلیں اور دلائل گھڑ لے وہ خود کو بے قصور ثابت نہیں کر سکتا۔

ہم نے اپنے اذہان میں یہ چیز بٹھا دی ہے جو اس قدر راسخ العقیدہ ہو گئی ہے کہ جو عورت ٹک ٹاک بنائے، جینز پہنے یا پردہ نہ کرے وہ بے حیا اور گھٹیا عورت ہے۔ اس کا کردار مشکوک ہے۔ اسے اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ اس کے اپنے اعمال کی ہی سزا ہے۔ قاعدہ اگر یہی ہے تو پھر وہ کونسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے عورت پردے سے لے کر قبر ستان تک غیر محفوظ ہے۔ معصوم بچیاں کس پاداش میں جنسی ہوس کا شکار ہوئیں۔ قبر ستان میں مردہ عورت نے کس لباس کی وجہ سے مرد کو مشتعل کیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام سی بات ہوگئی ہے کہ عصمت دری کا کوئی بھی واقعہ ہو اسے عورت کی غلطی کہہ کر اپنے افعال پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ موٹر وے ریپ کیس ہوا اس میں بھی یہی عمل دہرایا گیا کہ عورت کے لباس نے ہی اسے خراب کیا۔ نور مقدم کیس میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا کہ وہ چونکہ لبرل ذہن خاتون تھی اس لئے اسے اسکے اعمال کی سزا ملی۔ وہ کوئی باکرہ عورت تو تھی نہیں جس کے لئے مرد کو قصور وار ٹھہرایا جائے۔ انصاف سے سوچیں تو کسی جنسی درندے کو ریپ کرنے اور قتل کرنے کے لئے یہ وجہ فراہم کرنے سے اس کے کیے گئے فعل کو درست سمجھا جا سکتا ہے۔؟ پاکستان میں ٹک ٹاک نامی ایپلیکیشن کو 40 ملین کے قریب لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اسے ستعمال کرنے والے مرد اور عورتیں دونوں ہیں۔ مردوں کو یہ استثنیٰ کیوں حاصل ہے کہ وہ معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کا موجب نہیں۔ اس گندی ایپ پر وہ بھی تو سماج کی اخلاقی گراوٹ کا موجب بن رہے ہیں۔ وہ یہاں درود پڑھنے تو نہیں جاتے۔ وہ بھی تو معاشرے میں بے راہ روی پھیلا رہے ہیں۔ لیکن یہ لعنت فقط عورت ہی کے حصے میں کیوں آتی ہے؟

آخ تھو ہماری سوچ پر اور ان لوگوں پر جنھوں نے ایک رکشے میں بیٹھی عورت کے ساتھ کی گئی اوچھی حرکت کو نہ صرف فلمایا بلکہ اس پر قہقہے بھی لگائے۔ ہماری بیغیرتی کا عالم دیکھئے کہ اتنے بڑے سانحے پر کوئی بھی شخص اس درندے کو پکڑنے کے لئے آگے نہیں بڑھا۔ یہاں تک کہ کسی پولیس والے نے بھی اس واقعے کو ہوتا نہیں دیکھا۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آئے روز جنسی درندوں کی اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ۔ہماری پستی کا عالم دیکھئے ہم صرف اس کو عورت سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر بیٹھی ہے۔ باقی باہر نکلی کوئی بھی عورت، عورت کہلائے جانے لائق ہی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری جو عورت گھر میں بیٹھی ہے وہی باکردار ہے۔ اس لئے باہر آئی ہوئی سب عورتیں چونکہ بد کردار ہیں اس لئے ہمیں آزادی ہے ہم انکے ساتھ جو کریں جس طرح پیش آئیں یہ ہمارا حق ہے ۔

اس سلسلے میں پولیس اور قانون نافذ کرانے والے اداروں کا کردار بہت مشکوک ہے۔ پولیس جس کا کام سماجی امن و امان قائم رکھنے کا ہے۔ وہ ہمیشہ ہر واقعے کے ہو جانے کے بعد ہی کیوں آتی ہے؟ ٹک ٹاکر لڑکی کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ وہ 15 پر کال کرتی رہی لیکن کوئی بچانے نہیں آیا۔ عصمت دری کے واقعے سے لے کر مندر کے ٹوٹنے تک پولیس نے اکثریت کی حمایت میں مظلوموں کو جس طرح بے حس معاشرے کے حوالے کیا ہے وہ لائق مذمت ہے۔ پولیس کی اگر یہی روش رہنی ہے تو اس محکمے کو بند کر دینا چاہئے کیونکہ اگر گروہی سطح پر معاملات طے ہونے ہیں تو پھر انکی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔

سماج صرف افراد کے مجموعے سے نہیں بلکہ اعلیٰ اقدار سے پھلتے پھولتے ہیں۔ باہمی ادب وآداب ہی سماج کا حسن ہیں۔ فرد اور افراد ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقی قدروں سے جڑے ہیں۔ باہم اقدار اور اخلاق سے جڑے سماج کی بناوٹ میں صرف مرد کلیدی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ مرد اور عوت کے باہمی اشتراک سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ سماج کی تخلیق میں اس کا وجود بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اس رو سے جتنا حق معاشرے پر مرد کا ہے اتنا عورت کا بھی ہے۔ لیکن ہم نے عورت کو سماج میں کیا حیثیت دی ہے؟ ہم عورت کی اہمیت صرف اس وقت سمجھتے ہیں جب ہمیں اسکی "ضرورت" پڑی ہو اور ہماری خواہشات کے تابع خود کو ڈھال رہی ہو۔

فی زمانہ ہمارا سماج اخلاقی گراوٹ کے اب اس درجے پر پہنچ گیا ہے جہاں کوئی بھی اخلاق سوز واقعہ ہمارے ذہنوں کو زیادہ دیر پراگندہ نہیں کرتا۔ کوئی بھی سانحہ آپ دیکھ لیں وہ قتل و غارت کا ہو یا پھر عصمت دری کا۔ وہ ہمارے زہنوں پہ کسی قسم کا بوجھ ڈالنے سے عاری ہوتا ہے اور ہم بے حسی سے اسے سن کر چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری چپ نے ہی سماج کو کھوکھلا اور برائیوں کا گہوارہ بنا دیا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اخلاقی گراوٹ سے دو چار ہو اور وہ زندہ قرار دیا جائے۔ اخلاقی گراوٹ سماجی برائیوں کے در وا کرتی ہے۔ اگر انکا تدارک نہ کیا جائے تو سماج سرطان زدہ ہو جاتا ہے، مر کھپ جاتا ہے اور مرے ہوئے سماج پر صرف بین کیا جاتا ہے۔

 

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔