ٹک ٹاکرز سے چھٹکارے کے لئے سپورٹس سائنسز کو ترقی دینا ہوگی 

04:52 PM, 23 Aug, 2021

اے وسیم خٹک
سپورٹس سائنسز وہ واحد شعبہ ہے جس میں حصہ لے کر نوجوان نسل کو موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی عفریت سے بچایا جاسکتا ہے۔وزیراعظم عمران خان چونکہ خود ایک سپورٹس مین رہ چکے ہیں اس لئے وہ اس کی افادیت سے باخبر ہیں۔ جس کی بدولت پہلے ہی دن سے وہ ملک بھر میں سپورٹس کو آگے کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔اس میدان میں خیبر پختونخواہ کی حکومت دیگر صوبوں سے اس لئے آگے ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں کھیلوں کے میدان بنانے اور سپورٹس کو ترجیح دینے پر پہلے دن سے کام شروع کیا ہے ۔وزیر اعلی محمود خان اور وزیر کھیل نے صوبہ بھر کے دورافتادہ علاقوں میں پلے گراونڈز بنانے کے پراجیکٹس شروع کئے ۔جس میں پشاور میں بین الاقوامی طرز کا نیا اسٹیڈیم اور تمام آضلاع میں سپورٹس کمپلیکس شامل ہیں ۔

بہت سے اضلاع میں سپورٹس کمپلیکس تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جس میں دیر، سوات، ایبٹ آباد اور کوہاٹ سمیت دیگر علاقے شامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ صوبہ بھر کے سکولوں میں سپورٹس کو لازمی قرار دینے اور ایک دن مکمل سپورٹس کو دینے کی پالیسی بھی آخری مراحل میں ہے ۔ان سب کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور سرکاری یونیورسٹیاں ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں بی ایس سے لیکر پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں آفر کر رہی ہیں ۔اور تعلیمی ادارے اس شعبہ میں تحقیق کے مواقع بھی فراہم کر رہی ہیں ۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں اگر سپورٹس سائنسز کی جانب نظر کی جائے تو سرحد یونیورسٹی سپورٹس کے لئے بہترین کام کررہی ہے اب تک ملک بھر میں یہ واحد ادارہ ہے جو سپورٹس سائنسز میں بین الاقوامی کانفرنسز کا انعقاد کراچکی ہے جس میں بین الاقوامی سپورٹس سائنسز کے ماہرین نے شرکت کی ہے ۔ان کانفرنسز کے پیچھے سپورٹس سائنسز کے مایہ ناز محقق اور سپورٹس سائنٹسٹ ڈاکٹر پروفیسر عبدالوحید مغل کا ہاتھ ہے ۔
گزشتہ تین سالوں سے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرانا اور نئی نئی تحقیقات اس شعبے میں کرانا جان جوکھوں کا کام ہے ۔دیگر شعبہ جات کی طرح سپورٹس سائنسز میں تحقیق اعلی پائے کی ہورہی ہے. کیونکہ سپورٹس ایسا شعبہ ہے جس کے ساتھ تمام شعبہ جات لنک ہیں ۔اور خاص کر ہیلتھ کا شعبہ جو سپورٹس کے بغیر چل نہیں سکتا۔کیونکہ ڈاکٹر ہر مریض کو ورزش کا مشورہ دیتے ہیں جو کہ سپورٹس اور ہیلتھ اینڈ فزیکل کی برانچ ہے ۔ دنیا بھر میں فزیشن مریضوں کو واک کا مشورہ دیتے ہیں جو اسی سپورٹس کا حصہ ہے
اگر موجودہ واقعات کی جانب نظر دوڑائیں تو ہماری نئی نسل سوشل میڈیا کی چکاچوند میں پھنس گئی ہے اور جو موجودہ حالات سامنے آرہے ہیں جس میں ریپ کے واقعات سرفہرست ہیں اس کی بنیادی وجہ سپورٹس سے دوری ہے ۔ پچھلے وقتوں میں جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو نوجوان نسل مثبت سرگرمیوں میں ملوث ہوتی تھی اور انہیں باقی کاموں کے لئے فرصت ہی نہیں ہوتی تھی۔ کھیلوں کے میدان نوجوان نسل سے بھرے ہوتے تھے مگر نئی ٹیکنالوجی کے باعث اب وہ سرگرمیاں معدوم ہوگئیں ہیں۔ اب موبائل کی بدولت ہماری نوجوان نسل کھلاڑیوں کی بجائے ٹک ٹاکر اور یوٹیوبر بن گئے ہیں ۔اور مینار پاکستان جیسے واقعات روز رونما ہورہے ہیں ۔
اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر عبدالوحید مغل کا موقف ہے کہ سپورٹس وہ واحد شعبہ ہے جس سے ہم نوجوان نسل کو تمام برائیوں سے بچا سکتے ہیں خاص کر سوشل میڈیا ایک ناسور کی طرح ہماری نوجوان نسل کو نگل رہا ہے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ نوجوان سپورٹس میں حصہ لیں اپنی صحت کا خیال رکھیں خاص کر خواتین کو اس شعبے میں آنا چاہیئے اور مثبت ایکٹیویٹیز میں حصہ لینا چاہیئے۔ سرحد یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے سپورٹس سائنسز کانفرنسز کا انعقاد اسی کی کڑی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو نئی تحقیق اس میدان میں ہورہی ہے اُس سے ہمارے نوجوانوں کو بھی معلوم ہوجائے اور ہمارے ہاں بھی سپورٹس کلچر پروان چڑھے جس طرح یورپی ممالک میں لوگ کھانا چھوڑدیتے ہیں مگر سپورٹس اور ورزش، واک نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ اس کی افادیت سے باخبر ہیں۔ ہم نے دودرجن سے زائد بین الاقوامی ریسرچرز نامساعد حالات میں پاکستان بلائے تھے اور اب بھی وہ آنا چاہتے ہیں مگر کرونا کے باعث یہ امسال اکتوبر میں یہ بین الاقوامی سپورٹس  کانفرنس آن لائن ہوگی مگر اس میں نئی تحقیق سے اگاہ کیا جائے گا جو کہ ہمارے لئے ایک مشعل کی حیثیت رکھتی ہے۔

سپورٹس سائنسز اور اس سے منسلک شعبہ جات میں کام کرنے کے لئے حکومت کو بہت زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اس سال ہونے والے اولمپکس میں ہم اپنے نتائج دیکھ چکے ہیں جو کسی بھی طور تسلی بخش نہیں ہیں کیونکہ ہم وہ توجہ کھیلوں کو نہیں دیتے نہ ہی ہم کھیلوں کے شعبہ میں اچھا بجٹ مختص کرتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑیوں کو وہ تربیت نہیں دی جاتی جو ان کا حق ہوتا ہے۔ اگر حکومت نئی نسل کو بگاڑ سے روکنا چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ مستقبل میں ہم سپورٹس میں اعلی مقام پائیں اور یوٹیوبر اور ٹک ٹاکرز سے چھٹکارا پائیں تو سپورٹس کے شعبے کو دوام بخشنا ہوگا
مزیدخبریں