کمیٹی نے ڈیم فنڈ معاملے پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو طلب کرلیا۔
پی اے سی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا، جس میں کمیٹی رکن برجیس طاہر نے کہا کہ ڈیم فنڈ سے متعلق اشتہارات پر 14 ارب خرچ ہوئے جب کہ 9 ارب اکٹھے ہوئے۔بتایا جائے کہ ڈیم فنڈ ڈیمز پر استعمال کیوں نہیں ہو رہا؟۔ انہوں نے کہا کہ ہم ججز کو دھمکیاں تو نہیں دے رہے۔ رکن کمیٹی مشاہد حسین سید نے کہا کہ ڈیم فنڈ سے متعلق انکوائری ہونی چاہیے۔
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار متنازع ہیں۔ وہ بھی ڈیم فنڈ پر جوابدہ ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان ڈیم فنڈ کے معاملے پر غیر آئینی اسٹے آرڈرز کو دیکھ لیں۔ پی اے سی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ڈیم فنڈ پر بریفنگ کے لیے طلب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی بلا لیا۔
پی اے سی اجلاس میں چیئرمین نیب آفاق سلطان نے شرکت کی۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے سوال کیا کہ مالم جبہ کیس کو کیوں بند کیا، کس چیئرمین نے کیا، جس پر چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے بتایا کہ سابق چیئرمین جاوید اقبال کے دور میں مالم جبہ کیس بند ہوا۔ نور عالم خان نے کہا چئیرمین نے مالم جبہ کیس غلط بند کیا، وہ بلیک میل ہوتا تھا۔ سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کے دور میں جتنے کیسز بند ہوئے، ان کو دوبارہ دیکھ لیں۔
چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ نیب آئینی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ افسران سے اثاثوں اور بھرتیوں کا ریکارڈ مانگتے ہیں تو نیب عدالت چلا جاتا ہے۔جو تفصیلات طلب کی گئی ہیں وہ تفصیلات کیوں نہیں دی گئیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکرٹری، کابینہ سیکرٹری، سیکرٹری قانون اور آئی جی اسلام آباد کو فوری طلب کرلیا۔ چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ میں ان کو بتاتا ہوں کہ پی اے سی کی کیا طاقت ہے۔ چئیرمین پی اے سی نے آڈیٹر جنرل سے نیب کے اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگ لیں
اجلاس میں چیئرمین نیب سے سوال کیا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ کے بی آر ٹی منصوبے میں بے ضابطگیوں سے متعلق انکوائری کے حکم پر نیب نے کیا کیا؟، جس پر چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے کہا کہ بی آر ٹی سے متعلق انکوائری کا آغاز 2018ء میں کیا۔ بی آر ٹی انکوائری کنٹریکٹ میں بے ضابطگی، ڈیزائن میں خرابیوں اور کئی گنا زیادہ لاگت سے متعلق تھی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بی آر ٹی انکوائری پر اسٹے دیدیا تھا۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آج پشاور سے ڈی جی آئے ہوتے تو بی آر ٹی پر جواب بہتر انداز میں دیتے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب سے بی آر ٹی انکوائری کی ٹائم لائن بھی طلب کرلی۔