بھارت کا تاریخی خلائی مشن ' چندریان 3 ' آج چاند کی سطح پر لینڈ کر گیا۔ مشن کی کامیاب لینڈنگ کے ساتھ انڈیا چاند کے قطب جنوبی حصے پر اترنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ لیکن نصف صدی قبل شروع ہونے والے سپیس پروگرام ' سپارکو ' کے تحت پاکستان اس خلائی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا. جنرل ضیا اور مشرف کے دور سے آج تک قومی سپیس پروگرام ' سپارکو' کےتمام سربراہان فوجی ہیں جن کے پاس نہ ہی متعلقہ تعلیم ہے اور نہ ہی تجربہ۔
سینئر صحافی اسرار احمد کی جانب سے ٹویٹ میں بھارت کو تاریخی کامیابی پر مبارکباد دی گئی جبکہ پاکستان کے خلائی پروگرام اور اس کے سول و عسکری سربراہان اور ان کی تعلیم و تجربےکے حوالے سےبھی بتایا گیا۔
انہوں نے اپنی سلسلہ وار ٹویٹ میں کہا کہ انڈیا چاند پر پہنچ گیا، مبارک ہو۔ پاکستان کا سپیس پروگرام 1961 میں ڈاکٹر عبدالسلام کی ایڈوائس پر شروع کیا گیا۔ شروع میں اسے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سپیس سائینسز ریسرچ ونگ کے طور پر شروع کیا گیا جو کہ 1964 میں سپارکو بن گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2001 تک سپارکو کی سربراہی بڑےنامور سائنسدانوں نے بھی کی۔ سپارکو کے آخری سویلین سربراہ ڈاکٹر عبدالماجد تھے جن کا پاک سیٹ کمیونکیشن سیٹلائیٹ لانچ کرنے میں اہم کردار تھا۔ عبدالماجد کی ریٹائرمنٹ کے بعد 2001 میں میجر جنرل رضا حسین سپارکو کے سربراہ بنے اور2010 تک اس عہدے پر رہے۔اس کے بعد سپارکو کی سربراہی میجر جنرل ریٹائرڈ احمد بلال نے کی جو 2016 تک اس عہدے پر رہے۔ 2016 سے 2018 تک میجر جنرل قیصر انیس خرم سپارکو کے سربراہ رہے۔ 2018 سے اب تک میجر جنرل عامر ندیم سپارکو کے سربراہ ہیں۔
سپارکو کے چار فوجی سربراہوں میں سےمیجر جنرل رضا حسین نے بی ایس الیکٹریکل انجینئرنگ،میجر جنرل قیصر انیس خرم نے بی این مکینیکل انجینئرنگ، میجر جنرل عامر ندیم نے بی ایس ایروناٹیکل انجینئرنگ اورمیجر جنرل ریٹائرڈ احمد بلال نے ایم ایس کمپیوٹر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
پاکستان دنیا میں سپیس پروگرام شروع کرنے والے 10 ممالک میں سے ایک تھا لیکن تاحال پاکستان میں خلائی سائنس کے شعبہ میں کچھ خاص ترقی نہیں ہو سکی۔
ملک کا پہلا سیٹلائٹ، 'بدر-1' سپارکو نے بنایا تھا اور اسے 16 جولائی 1990 کو چین کے زیچانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانچ کیا گیا تھا۔ پاکستان ایسا کرنے والا پہلا مسلم ملک بنا۔جس نے پاکستانی سائنسدانوں کو ٹیلی میٹری اور دیگر سیٹلائٹ ٹیکنالوجیز میں قابل قدر تجربہ فراہم کیا تھا۔
سپارکو نے پاکستان کے میزائلوں کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ 80 کی دہائی کے اوائل میں سپارکو نے حتف I اور حتفII میزائل تیار کرنا شروع کر دیئے۔ ایم 11 میزائل چین سے سیکورٹی ضروریات کے لیے منگوائے گئے اور چین کی مدد سے میزائل بنانے کی فیکٹری بھی بنائی گئی۔
اس دوران خلائی پروگرام کو بہت سی ناکامیوں، مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اس کے خلائی پروگرام کی پیشرفت جزوی طور پر سست ہو گئی۔ سپارکو نے سائنسی تحقیق کے لیے راکٹ ایندھن کی تھوڑی مقدار درآمد کی اور اسے برقرار رکھا اور 1999 میں اعلان کیا کہ وہ تین سالوں میں اپنا سیٹلائٹ اور لانچ گاڑیاں متعارف کرائے گا۔ تاہم اس پروگرام کے بارے میں مزید تفصیلات کبھی سامنے نہیں آئیں۔ ایجنسی اب 2011 سے خلائی پروگرام 2040 پر عمل پیرا ہے جس کا واحد مقصد صرف دوسرے ممالک سے زیادہ سے زیادہ سیٹلائٹ لانچ کرنا ہے۔
چین اوربھارت حالیہ دہائیوں میں بڑی خلائی طاقتوں کے طور پر ابھرے ہیں۔
سال 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ سال 2022 میں پاکستان کی جانب سے پہلا مشن خلا میں بھیجا جائے گا۔
فواد چوہدری نے بتایا کہ پہلا پاکستانی شخص فضائی تحقیقات سے متعلق کام کرنے والے چینی ادارے ‘چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی‘ (سی ایم ایس اے) کے تعاون سے خلاء میں جائے گا۔ بعدازاں اس بارے میں کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔